والے کاج میں اوپر والا بٹن اکثر لگاتا اور جرابیں بھی الٹی پہنتایعنی ایڑھی والا حصہ اوپرہوتا وغیرہ وغیرہ اور یہ خصلتیں اُسے ایک امتیازی صفات کا حامل تو کیا عام نورمل انسانوں کی فہرست سے بھی جدا کردیتی ہیں جبکہ اس کے برعکس انبیاء علیہم السلام کا مقام تو مخلوقات میں سب سے بلند ہے، اولیاء اﷲ کے بچپن و جوانی ہی کو دیکھ لیں ان کا بچپن اور جوانی علم و حکمت، ذہانت و شرافت، تقویٰ و طہارت اور اعلیٰ اخلاقی صفات و اقدار سے منوّر ہوتےاور ان کے روشن پاکیزہ مستقبل پر دلالت کرتےہیں لیکن یہاں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ مرزا اورکُتّا: سیرت المہدی میں ہے کہ :’’ حضرت مسیح موعود نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک کتا بھی رکھا تھا۔ وہ دروازے پر بندھا رہتا تھا اور اس کا نام شیرو تھا۔ اس کی نگرانی بچے کرتے تھے یا میاں قدرت اﷲ خان صاحب مرحوم کرتے تھے۔ جو گھر کے دربان تھے۔‘‘[1] کوئی جانے نہ جانے ’’ کُتّا ‘‘ تو جانے ہے: آگے ملاحظہ فرمائیں کہ آخر مرزا کے وقار اور اعلیٰ صفات کو جاننے اور پہچاننے والے تھے کون؟ مولوی عبدالکریم سیالکوٹی قادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’مجھے یاد ہے کہ حضرت(مرزا غلام قادیانی) لکھ رہے تھے۔ ایک خادمہ کھانا لائی اور حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کھانا حاضر ہے۔ فرمایا خوب کیا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی اور میں آواز دینے کو تھا، وہ چلی گئی اور آپ پھر لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ اتنے میں ’’کتا‘‘ آیا اور بڑی فراغت سے سامنے بیٹھ کر کھانا کھایا اور برتنوں کو بھی صاف کیا اور بڑے سکون اور وقار سے چل دیا۔ اﷲ اﷲ ان جانوروں کو بھی کیا عرفان بخشا گیا ہے۔ وہ کتا اگرچہ رکھا ہوا اور سدھا ہوا نہ تھا۔ مگر خدا معلوم اسے کہاں سے یقین ہوگیا اور بجا یقین ہوگیا کہ یہ پاک وجود بے ضرر وجود ہے اور یہ وہ ہے جس نے کبھی چیونٹی کو بھی پاؤں تلے نہیں مسلا اور جس کا ہاتھ کبھی دشمن پر بھی نہیں اٹھا۔۔۔‘‘[2]اب ہم یہ سوچتے ہیں کہ واقعی کتّا ہی تھا ناں کیونکہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بسا اوقات شیطان بھی کتے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔بحرحال ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ مرزا میں مذکورہ عظیم صفات انسانوں |