اسی طرح ائمہ اسلام بھی اس معاملہ میں اس حد تک حسّاس ہیں کہ اگر کوئی نبوّت کا دعویٰ کرے تواُس کے اس دعویٰ پر یقین تو بہت دور کی بات ہے اُس سے اُس کی نبوّت کی دلیل تک طلب کرنے کو وہ مساوی کفر گردانتے تھے کہ اس معاملہ میں بحث و تمحیص تک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اسی لیےخواص و عوام اہلِ اسلام کا ہر دور میں یہ اجماع رہا ہے کہ اس عقیدہ پر کامل ایمان( ایسا ایمان جو اس مسئلہ کی تمام جزویّات کو شامل ہو اور ہر قسم کے شکوک و شوائب سے پاک ہو)کے بغیر کسی بھی مسلمان کا اسلام و ایمان قابلِ قبول نہیں ہےلہٰذا جس نے بھی اس عقیدہ کا کسی بھی طرح انکار کیا وہ باتفاقِ اہلِ اسلام کافر و مرتداور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ مزید ختمِ نبوّت کے دلائل، مدّعیانِ نبوّت وغیرہ سے متعلق تفصیلی مضامین ’’ البیان ‘‘کی اس خاص اشاعت میں موجود ہیں جنہیں اپنے مقام پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ اب آئیے ! باقاعدہ مضمون کی طرف جس کی ابتدا ہم مرزا کی پیدائش ، خاندان اور سلسلہ نسب سے کر رہے ہیں ۔ مرزا کی پیدائش ،خاندان اور سلسلہ نسب قارئینِ کرام! اس سے پہلے کہ ہم مرزا کی پیدائش ، خاندان اور سلسلہ نسب پر بات کریں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مرزا کی پوری زندگی مجموعہ اختلافات ہے ، بالخصوص اُس کا خاندان اور سلسلسہ نسب جو خود مرزا،اس کے خلفاء اور ماننے والوں کے نزدیک متنازع ہے اور یہ سب آپ درجِ ذیل سطور میں ملاحظہ کریں گے لہٰذا جو شخص نبوّت جیسے مقدّس منصب کا دعوی کرے اور اس کے ماننے والے بھی اسے نبی سمجھتے ہوں اور دوسری طرف اس کا خاندان اور سلسلہ نسب تک واضح نہ ہو تو ایسا شخص نبی تو دور ایک عام ثقہ قابلِ اعتبار شخص کے پیمانہ پر بھی پورا نہیں اترتا چہ جائے کہ اُس کے دعوائے نبوّت پر بات کی جائے ۔ سو اگر مرزا کے دعوائے نبوّت کو ہم اسی تناظر میں دیکھ لیں تو بات یہیں ختم ہوجاتی ہے آگے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی لیکن ہم اس کی زندگی کے کچھ مزید پہلو اس لیے بھی واضح کریں گے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ مرزا ایک عام اچھا انسان تک کہلانے کے لائق نہیں بلکہ جیسے جیسے اُس کی زندگی کے مختلف پہلو سامنے آتے رہیں گے ویسے ویسے اُس کی رذالت و قباحت سے پردہ اٹھے گا اور ایک مسلمان تو دور عام انسان بھی اُس سے کراہت محسوس کرے گا۔ |