Maktaba Wahhabi

72 - 290
’’وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘[1] ’’ اور یقیناًمیری اُمت میں تیس 30کذاب (انتہا کے جھوٹے ،دجّال) ہوں گے جن میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں ’’ خاتم النّبیین ‘‘ یعنی سلسلہ نبّت کا اختتام فرمانے والا ہوں ،(یاد رکھنا!) میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘ کتبِ احادیث و تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک ہی میں اس کا آغاز ہوچکا تھا ۔چنانچہ یمن میں ایک شخص جس کو’ اسود عنسی‘ کہاجاتا تھا، اُس نے سب سے پہلے عقیدہ ختم ِنبوت سے بغاوت کرکے اپنی نبوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا،جس کے جواب میں نبیِ آخر الزّماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کو اس سے قتال وجہاد کا باقاعدہ تحریری حکم صادر فرمایا اور بالآخر سیدنا فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے خنجر نے نبوّت کے اس جھوٹے دعویدار کو اُس کے انجام تک پہنچایا ۔ اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی تھی جس نے پورا ہونا تھا لہٰذا یہ سلسلہ اور آگے بڑھا ، ایک اور مدّعی نبوّت کھڑا ہوا جس کا نام تھا ’مُسیلمہ کذّاب‘ اُس نے نبوّت کا دعویٰ کیا اور اپنے ارد گرد کئی لوگوں کو بھی جمع کرلیا لیکن دوسری طرف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار غیور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو اس عقیدہ ختمِ نبوّت کی خوب اچھی طرح حفاظت کرنا جانتے تھے لہٰذا خلیفہ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر مدّعی ِ نبوّت اور اس کے ماننے والوں کے خلاف جہاد و قتال کا فیصلہ ہوا ، سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قریباً دس ہزار پاسدارانِ نبوّت نے قریباً چالیس ہزار منکرینِ ختمِ نبوّت مرتدّین پر دھاوا بول دیا اور حق و باطل کے اس معرکہ میں جسے ’’ یمامہ ‘‘ سےتعبیر کیا جاتا ہے قریباً 14000 چودہ ہزار اور ایک روایت کے مطابق 22000بائیس ہزار مرتدین جہنم واصل ہوئے اور 1200 کے قریب جانثارانِ ختمِ نبوّت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں 600 یا 700 کے قریب تو محض حفّاظ اور قرّاء صحابہ تھے اور 80 کے لگ بھگ بدری صحابا ء تھے رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ اس موقع پرصحابہ کرام نے اپنی جانوں کا نذرانہ تو پیش کر دیا مگر اس عقیدہ پر آنچ نہ آنے دی۔
Flag Counter