پائی۔اکتوبر1958ءکو یہ اپنی جماعت کے ’’اوقاف‘‘ کاسربراہ بنا۔ 1960ء سے 1969ء تک یہ مجلس خدام الاسلام کانائب صدر بعد ازاں صدر بنا۔ 1979ء سے 1982ء یہ مجلس انصاراللہ کا کاسربراہ رہا۔ اپنے پیشروؤں کی طرح گرتے پڑتے اٹھتے بیٹھے لیٹتے روتے مرزا طاہر احمد کی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی جب اس کے امتیوں کو اس کاچہرہ دکھانے کے لیے اس کی لاش کو باہر لایاگیا تو چہرہ سیا ہ ہوگیا اورلاش سے اچانک تعفن اٹھنے لگا اور اس کے امتیوں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور لاش بند کر کے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے ان مناظر کا مشاہدہ براہِ راست قادیانی ٹی وی پر کیا۔ مرزاطاہر آمرانہ طبیعت کامالک تھا اس کی اس آمرانہ طبیعت نے مرزائیت کو دنیا بھر میں ذلیل کروایا،اس کے ’’دورخلافت‘‘ میں لڑکیوں کی عزت محفوظ نہ تھی اپنے پیشروؤ ں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس نے بھی حیاسوز حرکتیں کیں ۔ مرزاطاہر نے اپنی عمر کے آخری چند سالوں میں اس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولے کہ کراماً کاتبین بھی ان کے جھوٹ لکھتے ہوئے حیران ہوتے ہوں گے وہ جھوٹ کی انتہا پر پہنچتے ہوئے ایک روز بیس کروڑ احمدیوں کی جماعت کا خلیفہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھا۔ اس کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتارہتا۔ کبھی باوضو نماز پڑھاتا تو کبھی بے وضو ہی نماز پڑھا دیتا۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع ۔ کبھی دوران نماز ہی یہ کہتے ہو ئے گھر کو چل دیتا کہ ٹھہرو! میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں ۔ یہ اپنے آپ کوہومیوپیتھک ڈاکٹر کہلوانے کا شوقین بھی تھا بلکہ اس کی خواہش تھی کہ قادیانی عورتیں صرف ’’احمدی ‘‘لڑکے پیداکریں ،اس کے لیے یہ قادیانیوں کو’’نر‘‘نسل کوپیدا کرنےکی گولیاں دیتاتھا، لیکن یہ ’’نر‘‘ نسل پیداکرنے کی گولیاں بانٹنےوالےجھوٹے خلیفہ کے گھر بیٹا نہ ہوا اس کے ہاں تین بیٹیاں پیداہوئیں ،اور ایک بیٹی کی شادی کی اور حق مہر دس رکھوایا پھر بھی اسے طلاق سےنہ بچاسکا۔[1] |