ان کے حقوق کی بات اٹارنی جنرل نے بھی کی اور خود بھٹو صاحب نے بھی۔ اقلیتوں کے حقوق کی بات دستور پاکستان میں بھی کی گئی ہے۔ خلط مبحث سے اجتناب کرنا چاہیے۔ قادیانیوں پر کہیں ظلم ہوتا ہے تو اس کی مذمت ہونی چاہیے اور کھل کر ہونی چاہیے۔ ان کے حقوق کہیں پامال ہوتے ہیں تو ریاست کا فرض ہے ان کی داد رسی کرے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمدردی میں انہیں مسلمان تسلیم کر لیا جائے۔ اسی طرح وہ غیر مسلم ہیں اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے حقوق سلب ہو گئے۔ انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیتوں کے لیے طے کر رکھے ہیں ۔ اگر وہ خود کو غیر مسلم مان لیں توان حقوق کی دستیابی کا معاملہ مزید آسان ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کا مسئلہ سمجھیے۔ ایک صاحب کے پیچھے نماز تک پڑھ لینے کے بعد اگر اسے معلوم ہو کہ وہ تو مسلمان نہیں قادیانی تھا تو پھر معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں پر جبرا یہ مسلط نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ختم نبوت کے منکرین کو مسلمان تسلیم کر لیں ۔ قادیانی بطور اقلیت دستور میں طے کردہ حدود و قیود کو تسلیم کر لیں تو معاملہ بہت آسان ہو جائے۔ بصورت دیگر یہ بات تو طے ہے کہ اسلام پر قادیانیوں کا دعوی ناقص ہے جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ نہ کل قبول کیا گیا نہ آج قبول کیا جائے گا اور نہ ہی آئندہ اس کی گنجائش ہوگی۔‘‘[1] وفات: مرزا ناصر29 جون1982ء کو72 سال کی عمر پاکر اپنے انجام کوپہنچا۔ 5. مرزا طاہر احمد مرزاطاہرکا1982ء میں انتخاب ہوا،مرزا ناصر کی وفات کے اگلے روز یہ30جون 1982ء یہ خلیفہ بنا۔ یہ مرزا بشیر کے ہاں قادیان میں 18دسمبر1928ء کو پیدا ہوا۔اس کی ماں کانام مریم بیگم تھا جوکہ اسی کی نسبت سے ام طاہر کی کنیت مشہور ہوئی۔ابتدائی تعلیم کے بعد گریجویشن کیا اس کے بعد قادیان کے جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور’’شاہد‘‘ کی سند حاصل کی۔اس کے بعد یہ لندن چلاگیاجہاں اس نے مزید تعلیم |