Maktaba Wahhabi

62 - 290
احادیث و روایات سے زیادہ معتبر ہیں ۔ مرزا ناصر نے کہا یہاں جو گھنڈی ہے وہ دیکھیں ۔ یہاں راویوں کی بات آ جاتی ہے۔ تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ احادیث تو بیسیوں راویوں کے پھیر سے ملیں اور الہام مرزا صاحب کو براہ راست ملے، اس لیے مرزا صاحب کے الہام احادیث سے مقدم ہیں ، جواب ملا جی ہاں ۔ اٹارنی جنرل نے اب کے سوال کیا کہ مرزا صاحب! حدیث خواہ وہ سو گنا بھی صحیح ہو۔ امام بخاری کی ہو یا کسی اور کی، وہ مرزا کے کلام سے اوپر نہیں ۔ مرزا غلام احمد کا کلام احادیث پر مقدم ہے۔ اس پر مرزا ناصر بولے کہ یہ مطلب تو آ ٹھویں کا بچہ بھی نہیں لے سکتا۔ حالانکہ وہ یہ بات پہلے تسلیم کر چکے تھے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں بے وقوف ہوں ، موٹے دماغ کا ہوں ، مگر آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ آپ کے عقائد سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ سوال ہوا کہ احمدیت اور سچا اسلام کے صفحہ0 1 پر لکھا ہے ’’ہمارا ایمان ہے کہ جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے، مستقبل میں بھی نبیوں کی جانشینی جاری رہے گی، کیونکہ سلسلہ نبوت کے مستقل اختتام کو عقل رد کرتی ہے یعنی تسلیم نہیں کرتی۔‘‘ مرزا ناصر نے اس کی تردید یا تائید نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دیکھ کر بتاؤں گا۔ اس پر آگے جا کر اٹارنی جنرل نے انہیں یاد دلایا کہ جب مرزا غلام احمد کہتے ہیں کہ نبوت میں ایک کھڑکی کھلی ہے تو آپ ہی کی جماعت کے آٹھ نو آدمیوں نے مرزا کی دیکھا دیکھی نبوت کا دعوی کر دیا جن میں ایک چراغ دین جمونی بھی ہے۔ اگلا سوال تھا مرزا غلام احمد کو کس کس زبان میں وحی آتی رہی۔ جواب آیا عربی، اردو، بعض دفعہ انگلش، پنجابی، فارسی۔ سوال ہوا مرزا غلام احمد نے کہا ہے (بحوالہ تحفہ گولڑویہ ص67 ۔روحانی خزائن صفحہ 153۔ج 21) کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تین ہزار اور مرزا کے معجزات کئی لاکھ ہیں (نعوذ باللہ)۔ جواب آیا مرزا صاحب کے معجزات بھی تو حضور ہی کے ہوتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آ پ لوگوں کے نزدیک مرزا قادیانی اور حضور علیہ السلام میں کوئی فرق
Flag Counter