Maktaba Wahhabi

57 - 290
تو اسے کمرے میں بندکردیاگیا،کمرے ہی میں یہ قضائے حاجت کرتا اس کا کچھ حصہ کھاجاتااور کچھ اپنے چہرے پر مل لیتا،آخری وقت میں کتے کی طرح بھونکنے لگ گیاتھا،جب یہ مراتو اس کی موت کا اعلان بھی کافی تاخیر سے کیاگیا وجہ یہ تھی یہ کئی ماہ سے نہایاہی نہیں تھا،اس کاجسم غلاظتوں کا ملغوبہ بن چکاتھا، مرنے کے بعد اس کاجسم رگڑ رگڑ کر دھویاگیا ناخن کاٹے گئے بدبو کو بھگانے کےلیے اعلیٰ قسم کی تیز خوشبوئیں لگائی گئیں ،منہ پر چمک کو پید اکرنے کےلیے اس کا میک اپ کیاگیا۔[1] مرزا بشیر پاکستان کے بننے پر خوش نہیں تھا،چنانچہ اپنے خطاب میں (جوکہ قادیانیوں کےرسالے روزنامہ’’الفضل‘‘ میں چھپی ہے) کہتاہے: ’’ میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے، لیکن اگر قوموں کی غیر معمولی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی کرنا پڑے تو یہ اور بات ہے، بسا اوقات عضو مائوف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا بھی مشورہ دیتے ہیں لیکن یہ خوشی سے نہیں ہوتا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالم میں اور صرف اسی وقت جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اور اگر پھر یہ معلوم ہوجائے کہ اس مائوف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے تو کون جاہل انسان اس کے لیے کوشش نہیں کرے گا۔ اس طرح ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضا مند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے، اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طرح جلد متحد ہوجائے۔‘‘[2] یہ ہے اس جھوٹے ’’خلیفہ‘‘ کے پاکستان کے بارےمیں میں خیالات،یہ قوم کسی بھی طرح مملکت خداد پاکستان سے خوش نہیں ہوسکتی۔ عصر حاضر حاضر کے معروف صحافی وبےباک ونڈر خطیب آغا شور ش کاشمیری رحمہ اللہ نے اس انگریز کے ’’تخم حرام‘‘ کے بارے میں بڑا ہی شاندار تبصرہ کیاہے وہ لکھتے ہیں :’’مرزا قادیانی برطانوی اغراض کا روحانی بیٹا تھا ’’قادیان‘‘مرزائیت کی جائے پیدائش،ربوہ اعصابی مرکز،تل ابیب تربیتی کیمپ ،لندن پناہ
Flag Counter