کےلیے اس کی بیٹی سے شادی بھی رچائی۔ اس کے باقی بیٹوں کو مرزا بشیر نے جماعت سے باہر نکال دیا۔آخر وقت میں حکیم نوردین کی قوت گویائی سلب ہوگئی ،بھیانک انداز میں اس کا چہرہ مسخ ہوگیا،اور اسی حالت میں یہ اپنے برے انجام کوپہنچا اورقادیان کے ’’بہشتی مقبرے‘‘ میں دفن ہوا۔[1] حکیم نوردین کے مرنے کے بعد جماعت احمدیہ دوحصوں میں منقسم ہوگئی ،ایک حصے کی سربراہی مرزا بشیرکے پاس آگئی اور دوسرے کی سربراہی محمد علی کے ہاتھ آگئی ، جوکہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے نام سے موسوم ہوا۔ 3.مرزا بشیرالدین محموداحمد 1914ء میں حکیم نوردین کے بعدیہ مرزائیت کادوسرا خلیفہ منتخب ہوا۔ مرزابشیر12 جنوری1889ءکوقادیان میں پیداہوا۔ یہ مرزا غلام احمد کابڑا لڑکاہے،تقسیم سے قبل قادیان میں رہائش پذیررہاتقسیم کے بعد وہ قادیان سےلاہور منتقل ہوا وہاں سےربوہ چلاگیاوہیں 7نومبر1965ءکو76 سال کی عمرپاکر مرا،ربوہ کے ’’بہشتی مقبرے‘‘ میں دفن ہوا۔ اخلاقی اعتبار سے یہ کیساتھا؟اس کےلیے جناب محمد متین خالد صاحب کی کتاب’’قادیانیت اُس بازار میں ‘‘(ص:14تا16)کامطالعہ کرلیاجائے جس میں ایسا واقعہ ایک سابق مرزائی کےحوالے سے مذکور ہے جوخود اس واقعہ کا عینی شاہد ہےاس لیےکہ وہ واقعہ یہاں لکھےجانے کے قابل نہیں ہے۔ مرزا بشیر کے بارے میں ایک خاندانی مرزائی اور قادیانی خلیفہ کے خاندان سےانتہائی قربت رکھنے والانوجوان حلفاًیہ گواہی دیتاہے: |