لکھتاہے:’’آپ اشیائے خوردنوش خود خریدیں اورایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر دکان سے خریدیں مگر ٹانک وائن چاہیے اس کا لحاظ رہے۔‘‘[1] مرزا نے اپنی جماعت احمدیہ 1889ء کو لدھیانہ میں قائم کی تھی،اور دعویٰ کیاکہ الہام کے ذریعہ اجازت دی گئی ہے کہ میں اپنے پیروکاروں سے بیعت لوں ۔چنانچہ اس نے 23 مارچ1889ءکو اپنے پیروکاروں سے بیعت لیناشروع کی ،پہلے روز اس بیعت میں چالیس افرادشریک تھے۔اس میں مرزا کاقریبی دوست حکیم نوردین بھی شامل تھاجوکہ مرزاکے بعد پہلاخلیفہ بنا۔ 1891ءکو مرزا نےمسیح اور مہدی موعود ہونے کادعویٰ کیا،اور اسی سال اپنی جماعت احمدیہ کا پہلاسالانہ اجتماع بھی منعقد کیا۔ مہدویت ومسیحیت کے دعوی کے بعد مرزا نے نبوت کاجھوٹا دعوی کیا،اور اس کےلیے عجیب وغریب پینترے بدلے جوکہ اس کی کتابوں میں مذکورہیں۔ وفات: مرزاغلام احمد قادیانی26 مئی 1908ء کولاہور میں بیت الخلا میں واصل جہنم ہوا اور اپنے انجام کو پہنچا،مرنے سے پہلے یہ ہیضہ کی بیماری کا شکارہوا ،منہ اور مقعد دونوں جگہ سے غلاظت بہتی تھی ،کثرت اسہال کی وجہ سے اس سے چل کر بیت الخلا جانا مشکل ہوگیا،اس لیے چارپائی کے پاس ہی یہ گندگی میں مشغول ہوگیاچنانچہ اس کی چارپائی کے اردگرد غلاظت کا ڈھیر لگ گیا ،ایک مرتبہ خود اٹھ کر بیت الخلا جانے کی کوشش کی وہاں پہنچ کر اپنی حاجت سے فارغ ہوا کمزوری کے سبب چکر آیاتو اپنی غلاظت میں ڈھیر ہوکر اپنے برے انجام کوپہنچااور وہیں پر ہی اس کی روح جسم سے پرواز کرگئی ،بعدازاں اس کی میت کولاہور سے قادیان لے جاکر وہاں کے مزعومہ’’بہشتی مقبرے‘‘ میں دفن کیاگیا ،جب اس کی لاش کو لاہور سے قادیان لایاجارہاتھا تو اہل لاہور نے اس کے تابوت پر کوڑے کرکٹ ،غلاظت کےبھرے ٹوکرے پھینک کر اس سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ |