جبکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہونے کے باوجود تواضع سے کام لیا کرتے تھے اور لوگوں کا ساتھ دیا کرتے تھےیہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور اعلی اخلاق کی وجہ سے بعض اوقات نئے لوگوں کو یہ اندازہ نہیں ہوپاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے برعکس جھوٹے نبی کسی بھی طریقے سے عہدہ اور شہرت حاصل کرنا چاہتے تھے چاہے امت کا اس میں کتنا ہی نقصان ہوجائے۔ 4.چوتھا سبب: امتیازات کے بدلے مساوات کے نظام سے نفرت در اصل جو لوگ عہدے اور شہرت کی چاہت میں لگے رہتے ہیں ان کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح وہ لوگوں میں ہمیشہ نمایاں رہیں اور سب ان کے ما تحت ہوں چاہے وہ جادہ گری کے ذریعہ ہو یا پھر سلطنت و مال و دولت حاصل کرکے، جبکہ اسلام نے ہر شخص کی ذاتی عزت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں رکھا بلکہ یہ فرمادیا: ’’ لَا فَضْلَ لِعَرَبِيّ عَلَى عَجَمِيّ، وَلَا لِأَبْيَضَ عَلَى أَسْوَدَ إِلَّا بِالتَّقْوَى ‘‘ ترجمہ:’’کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ،اور نہ ہی کسی گورے کوکالے پر مگر تقویٰ کی وجہ سے۔‘‘ نیز قرآن مجید میں بھی ہے: ’’إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ ۔‘‘( الحجرات : 13) ترجمہ:’’بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ نوٹ: اسلام نے اگرچہ اخوّت و مساوات کا درس دیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہ تھا کہ بڑے چھوٹے کی تمیز ہی ختم کردی جائے بلکہ بڑوں کے ادب اور چھوٹوں پر شفقت کا بھی نظام دیا ہے نیز اگر کوئی سردار اسلام لاتا تو نبی علیہ السلام اسے اپنی قوم کا سردار اور ذمہ دار ہی رہنے دیتے، اور اسے ہی تعلیم دے کر اس کی قوم کی تبلیغ کے لئے مقرر فرماتے، البتہ اسلام نے بلاوجہ کے غرور و تکبر اور ظلم سے روکا ہے جو کہ دنیا پرست لوگوں کو اپنی ظالمانہ خواہشات کے خلاف لگتا تھا۔ جبکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیارے رسول ہونے کے باوجود کبھی فخر و تکبر اورظلم سے کام نہ لیتے تھے۔ |