قومی تعصب: اس کے نتیجے میں قومیں آپس میں مقابلہ کرتیں اور اسی برائی نے کچھ لوگوں کو نبوت کا دعوی کرنے پر ابھارا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی بڑی قوت و عزت والے تھے اور اپنے آپ کو ہر لحاظ سے آزاد سمجھتے تھے جبکہ دیگر تمام لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے نیز جن عرب سے انہیں کوئی خطرہ ہی نہ تھا وہی عرب ان پر غالب آگئے لہٰذا ان فارسیوں کے لئے یہ بات بہت زیادہ پریشان کن ثابت ہوئی اور انہوں نے کئی موقعوں پر اسلام کی مخالفت کی۔ اور جب بھی انہوں نے اسلام کی مخالفت کی تو اللہ تعالی نے انہیں رسوا کردیا،اسلام ہمیشہ ان پر غالب آرہا تھا اس لئے ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام ظاہر کیا اور آل بیت سے اور خصوصا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت و ہمدردی کا دعوی کیا ۔ فارسی لوگ در اصل فارسی تعصب کی بنیاد پر یہ حیلے بہانے تلاش کرتے رہے تاکہ اسلام کی مخالفت کر سکیں ۔ اور ان کا یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ عجمیوں میں بھی ایک رسول مبعوث فرمائے گا اور اس پر آسمان سے کتاب بھی نازل فرمائے گا، اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو چھوڑ دے گا، اور اس صابی(جس کا کوئی مذہب نہ ہو یا پھر آگ کے پجاری) مذہب کو آباد فرمائے گا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ چونکہ فارسی لوگ آگ کے پجاری تھے اس لئے انہوں نے یہ بات کہی۔[1] اسی بنیاد پر کچھ تاریخ نگاروں کا خیال ہے کہ سجاح شمال عراق سے جو شبہ جزیرہ عربیہ کی طرف آئی اور وہاں کے لوگوں نے اتنی آسانی سے اس کی بات مان لی ،اس کی بنیادی وجہ اس کی کہانت اور ذاتی مفاد نہیں بلکہ فارسیوں اور عراق میں ان کے وزراء نے اسے ابھار کر عرب میں پھوٹ ڈالنے کے لئے بھیجاتھا تاکہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر سکیں ، کیونکہ جب سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری کے گورنر باذان کو مسلمانوں کی طرف سے یمن کا گورنر بنا یا تھا تو ان کی طاقت اور زیادہ کمزور ہوگئی تھی۔ لیکن وہ (سجاح) زیادہ عرصہ وہاں رہ نہ سکی بلکہ عراق واپس چلی گئی اور فارسیوں کی ناپاک کوششیں ناکام ہو کر رہ گئیں ۔ |