﴿قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُواْ وَلَٰكِن قُولُواْ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾(الحجرات – 14) ’’ بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمھیں تمھارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ 2.اسلامی تعلیمات میں عدم رسوخ: دور دراز کے علاقوں کے لئے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیمی سلسلہ عموما یہ تھا کہ وہ لوگ کچھ افراد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تعلیم حاصل کرنے بھیجتے اور وہ سیکھ کر واپس جا کر اپنی قوم کو سکھاتے اور بعض اوقات ان کے ساتھ نبی علیہ السلام صحابہ میں سے کسی کو بھیج دیتے ، لیکن جو قبائل فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ان میں سے کچھ دیہات والے اس طرح تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ جس وجہ سے ان میں دینی بنیادیں مضبوط نہ ہوسکیں تھیں اور اس کے نتیجے میں بڑی جلدی وہ دوبارہ جاہلیت اور عصبیت کی طرف پلٹ گئے۔ 3.زکاۃ کو بوجھ سمجھنا: جو لوگ جھوٹے نبی (متنبی) کی سازش کا حصہ بنے ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہیں زکوٰۃ دینا بہت بوجھ لگتا تھا کیونکہ دین سے زیادہ مال سے محبت تھی، جس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾(التوبۃ: 98) ترجمہ’’:اور بدویوں میں سے کچھ وہ ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تم پر (زمانے کے) چکروں کا انتظار کرتے ہیں ، برا چکر انھی پر ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ نوٹ: جو لوگ شہرت چاہتے ہیں وہ ایسا کام کرتے ہیں جو عوام کی چاہت کے مطابق ہو تاکہ لوگوں میں |