سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کا انکار کرتے ہوئے اس کا معنیٰ یہ بیان کیا : ’’ ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کرسکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسیٰ نے اپنا رفیق بنایا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونگ دی جس وہ وہ پرواز کرنے لگے ۔ [1] سیدنا آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا جس کا ذکر سورہ بقرہ اور دیگر قرآنی سورتوں میں مذکور ہے ۔ لیکن موصوف نے یہاں بھی اپنے عقلی گھوڑے دوڑاتے ہوئے کچھ یہ کارنامہ سرانجام دیا : ’’ جاننا چاہیے کہ یہ سجدہ کا حکم اس وقت سے متعلق نہیں ہے کہ جب حضرت آدم پیدا کئے گئے بلکہ یہ علیحدہ ملائک کو حکم کیا گیا کہ جب کوئی انسان اپنے حقیقی انسانیت کے رتبہ تک پہنچے اور اعتدال انسانی اس کو حاصل ہوجائے اور خدا تعالیٰ کی روح اس میں سکونت اختیار کرے تو تم اس کامل کے آگے سجدہ میں گرا کرو یعنی آسمانی انوار کے ساتھ اس پر اترو اور اس پر صلوۃ بھیجو ۔ [2] مرزا نے لکھا : ’’اراداللّٰہ ان یبعثک مقاما محمودا‘‘[3] مرزائی الہامی ترجمہ : ’’ خدا نے ارادہ کیا ہے جو تجھے وہ مقام بخشے جس میں تو تعریف کیا جائے گا۔ ‘‘ گستاخ کی مجال دیکھئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں مذکور آیات کو کس طرح سے توڑ مروڑ کر اپنے لیے پیش کررہا ہے ۔ سورۃ القدر میں لیلۃ القدر کی رات کوہزار مہینوں کی رات سے افضل بیان کیا گیا ہے ، جو کم و بیش اسی (80) برس کی عمر بنتی ہے۔ مرزا نے لیلۃ القدر کے اصل مفہوم کو بدل کر جو مفہوم بیان کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں : ’’ یعنی اس لیلۃ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اسی (80) برس کے بوڑھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا اور اگر ایک ساعت بھی |