اس وقت کو پالیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ جو پہلے گزر چکے۔ کیوں کر بہر ہے ؟ اس لیے کہ اس لیلۃ القدر میں خدا تعالیٰ کے فرشتے اور روح القدس اس مصلح کے ساتھ رب جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لیے کہ مستعد دلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی راہیں کھولیں ۔ ‘‘[1] مرزائی الہامی مشین کے ہاتھوں قرآنی مفاہیم میں تحریف کی داستان بہت لمبی ہوسکتی ہے شاید اسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مرزا کی خواہش بھی تھی کہ مکمل تفسیر لکھی جائے لیکن اس سے اللہ تعالیٰ نے امت کو بچالیا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی اس فتنے کی ریشہ دوانیوں سے امتِ مسلمہ کو محفوظ رکھے۔ آمین 5. احادیث کا انکار مرزا کے مشن ، اس کی زہریلی فکر میں بڑی رکاوٹ احادیث ہیں ، جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہذا منکرین کی روش اختیار کرتے ہوئے ان احادیث کے انکار میں ہی اس نے عافیت جانی، چنانچہ اس نے لکھا : ’’ ہم اس کے میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعوی کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جوکہ میرے پر نازل ہوئی ، ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطبق ہیں اور میرے وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔ ‘‘[2] احادیث کے لیے ایسے سخت کلمات کے’’ ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔ ‘‘ اس جملے میں سراسر اللہ تعالیٰ کی وحی کا انکار ہے جوکہ کفر ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مرزا جب اپنے الہامات بیان کرتا ہے تو بسا اوقات وہ احادیث بھی الہام بناکر پیش کرتا ہے جو من گھڑت ہیں اور اہل تحقیق نے انہیں رد کردیا مثلاً : لکھتا ہے : ’’ کنت کنزا مخفیا‘‘ یعنی : میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا۔ ‘‘[3] |