انا اول المؤمنین ، قل جاء الحق و زھق الباطل ، ان الباطل کان زھوقا ۔ کل برکة من محمد صلی اللّٰہ علیه وسلم ۔ فتبارک من علم و تعلم ۔ وقالوا ان ھذا الا اختلاق ۔ قل اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون ۔ قل ان افتریته فعلی اجرام شدید ومن اظلم ممن افتری علی اللّٰہ کذبا ۔ ھوالذی ارسل رسوله بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ۔ لامبدل کلماتہ ۔ یقولون انی لک ھذا ان ھزا الا قول البشر و اعانه علیہ قوم اٰخرون ۔ افتأتون السحر و انتم تبصرون ۔ ھیھات لما توعدون ‘‘[1] یہ ڈیڑھ صفحہ ہم نے اس کی کتاب سے نقل کیا ہے اور اس میں تمام انڈر لائن کلمات قرآن کریم کے ہیں اور بعض میں کچھ لفظی تبدیلی بھی ہے ، اور پھر ان سب کے معانی کرنے میں تو مرزا ویسے ہی آزاد تھا اس لیے ان کے معانی بھی اس نے اپنے من چاہےکردیے ۔ بہرحال بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، جس عربی کی فصاحت پر اسے ناز تھا ، وہ تو ساری کی ساری قرآنی عربی ہے ۔ 3.قرآنی آیات میں لفظی تحریف اس کی ایک مثال یہاں پیش کی جاتی ہے قرآن کریم کی صحیح آیت یہ ہے : ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تُجْرِمُونَ ﴾ (ھود : 35) ترجمہ :( اے نبی)! کیا کافر یہ کہتے ہیں کہ: اس نے یہ (قرآن) خود ہی گھڑ لیا ہے آپ ان سے کہئے کہ: ’’اگر میں نے گھڑا ہے تو میرا گناہ میرے ذمہ ہے اور جو تم جرم کر رہے ہو میں ان سے برئ الذمہ ہوں ۔ ‘‘ اسی آیت کے ایک حصے کو مرزا نے اپنا الہام بناکر پیش کیا تو کچھ یوں پیش کیا : ’’قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَام شدید‘‘[2] |