ایمان بالرسالۃ اور مرزائی لٹریچر : عقیدہ رسالت کا شمار ان بنیادی عقائد میں ہوتا ہے ، جو مسلمان ہونے کی علامت ہیں ، چھ ایمانیات میں سے ایک ایمان بالرسل ہے، جس کامفہوم یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تک تمام انبیا و رسل کی نبوت اور رسالت کو برحق ماننا، کیونکہ انہیں سونپا جانے والا منصب رسالت من جانب اللہ ہے جوکہ عظیم منصب ہے کہ نبی یا رسول قوم کی ہدایت و رہنمائی ، ان کے عقائد اصلاح ، معاشرتی اصلاح کا کام کرتا ہے ، اسلامی عقائد کی رو سے یہ انبیاء حق و صداقت کے پیامبر ، گناہوں اور معصیات سے بالکل پاکدامن ہوتے ہیں ، لہذا ان انبیاء کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنا جو ان انبیاء کی تنقیص کا موجب ہو کفریہ عقیدہ کہلائے گا ۔ اس لیے بحیثیت مسلمان ، ہر کلمہ گو اپنی اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے اور انبیاء کے بارے میں انتہائی مؤدبانہ گفتگو کرتا ہے ، یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے ، انبیاء کے تعلق حد درجہ ادب امر مطلوب ہے ، جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان انبیاء کے مابین تفریق سے روکا گیا ہے، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ﴾ یعنی :’’ ہم ان انبیاء میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم تو اسی (ایک اللہ ) کے فرمانبردار ہیں ۔‘‘ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس کے منہ پر کسی نے طمانچہ مارا تھا ۔ اس نے کہا ، اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ کے انصار ی صحابہ میں سے ایک شخص نے مجھے طمانچہ مارا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ، انہیں بلاؤ ۔ لوگوں نے انہیں بلایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:تم نے اسے طمانچہ کیوں مارا ہے ؟ اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں یہودیوں کی طرف سے گزراتو میں نے سنا کہ یہ کہہ رہا تھا ، اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ، میں نے کہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ۔ مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا اور میں نے اسے طمانچہ مار دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا : ’’ لا تخيروني من بين الأنبياء‘‘ یعنی : مجھے انبیاءپر فضیلت نہ دیا کرو ۔ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش کر دیئے جائیں گے ۔ سب |