في ذلك من وصفه بالسالم ومن موجبات وصفه بذلك سلامة خلقه من ظلمه لهم فسلم سبحانه من إرادة الظلم والشر ومن التسمية به ومن فعله ومن نسبته إليه فهو السلام من صفات النقص وأفعال النقص‘‘[1] یعنی : ’’اللہ تعالیٰ کا نام السلام کا معنی یہ ہے کہ جو عیوب و نقائص سے سالم ہو اور السلام سالم کی بہ نسبت زیادہ بلیغ ہے اس صفت کے موجبات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم ، شر ، اور اس قسم کے نام سے ، فعل سے ،کسی عیب یا نقص پر مشتمل نام کی اللہ کی طرف نسبت سے اللہ تعالیٰ محفوظ ہے اور وہ صفات ِ نقص وافعال ِ نقص بالکل پاک اور منزہہے ۔ ‘‘ 3. مرزا کا خود کو اللہ تعالیٰ کا جزء قرار دینا : مرزا نے متعدد مقامات پر ایسی ہفوات و کفریات لکھی ہیں جو نقل کفر ، کفر نہ باشد کے اصول کے تحت پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے ، مرزا نے لکھا : ’’انت منی بمنزلۃ عرشی انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘[2] ’’ تو مجھ سے بمنزلہ عرش کے ہے ، تو مجھ سے بمنزلہ فرزند کے ہے ۔‘‘ ایک اور جگہ لکھا: ’’انت من ماءنا وھم من فشل‘‘[3] یعنی :’’ تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ فشل سے۔‘‘[4] ایک اور جگہ لکھا : ’’یا قمر یا شمس انت منی و انا منک‘‘[5] |