و ھوي و مري و حرکتی و سکوني له ومنه و صرت من نفسي کالخالین وبینما انا فی حذہ الحالة کنت اقول انا نرید نظاما جدیدا وسماءاجدیدا وارضا جدیدۃ فخلقت السمٰوات والارض اولا بصورۃ اجمالیة.... ‘‘ پھر لکھا : ثم خلقت السماء الدنیا وقلت انا زینا السماء الدنیا بمصابیح ثم قلت الآن نخلق الانسان من سلالة من طین[1] یہ عبارت اللہ تعالیٰ کی شان اقدس میں گستاخیوں اور مرزا کے خدائی دعووں اورحلول کے دعوؤں کا مجموعہ ہے ، اس عبارت کا ترجمہ کرنے کی سکت نہیں ، اس لیے اسی پر اکتفاء سمجھیں ۔ان تمام عبارات میں مرزا کی جسارتوں کو ملاحظہ کیا گیا کہ کس طرح وہ حلولی وحدت الوجود جیسے باطل عقیدہ کا معتقد ہے،اور وہ بھی اس معنی میں کہ خود کو اللہ کہتا ہے ، معاذاللہ ثم معاذاللہ عقیدہ وحدت الوجود یا حلولی عقیدہ کا اسلامی عقائد سے کوئی تعلق نہیں یہ دوسرے مذاہب سے لیے گئے باطل عقیدے ہیں ، اس عقیدے کی تردید کرتے ہوئے مولانا اقبال کیلانی لکھتے ہیں :بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت وریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے اس عقیدے کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ عبادت اور ریاضت میں ترقی کرنے کے بعد انسان اللہ کی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے اور وہ دونوں (خدا اور انسان) ایک ہو جاتے ہیں ، اس عقیدے کو “وحدت الشہود“ یا فنا فی اللہ کہاجاتاہے، عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدر لطیف اور صاف ہوجاتاہے کہ اللہ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے۔ ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، ہندومت کے عقیدہ اوتار، |