Maktaba Wahhabi

195 - 290
نسبت ان کی کیا رائے ہے۔عبداللہ مکان میں چھپ گئے۔آنحضرت علیہ السلام نے یہودیوں کو بلاکر پوچھا۔عبداللہ بن سلام تم میں کیسا ہے؟ سب نے کہا’’خیر نا وابن خیرنا أعلمنا وابن أعلمنا‘‘ (ہم سب سے اچھا اور اچھے کا بیٹا،ہم سب سے بڑے علم والا اوربڑے علم والے کا بیٹا) اتنےمیں عبداللہ اندر سےآئے نکل کر کہا۔’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ یہودیوں نے ذرہ شرم نہ کی سنتے ہی فوراً کہا’شرنا وابن شرنا‘’’ہم میں برا اور برے کا بیٹا ہے۔(سیرالاعلام للذھبی ج2ص415) یہی حال ہمارےمناظر منشی قاسم علی اور ان کی پارٹی کا ہے ہم نے کئی ایک معززین کے نام سرپنچی کے لیے پیش کیے۔جن میں ایک نام سردار بچن سنگھ صاحب کا تقاضا بھی تھا۔منشی صاحب نے لدھیانوی دوستوں کے مشورہ سے سردار صاحب کو دیانتدار جان کر منتخب کیا اپنا سردار بنایا۔تمام باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں دی مگر جب انہوں نےواقعات کی بنا پر ان کے خلاف منشاء فیصلہ دیا ۔تو جس منہ سے خیرنا کہا تھا اسی منہ سے شرنا کہتے ہوئے ذرہ نہ جھجھکے۔ دو اشتہار اور ایک اخباران کی طرف سے فیصلہ مباحثہ کے بعد متصل ہی نکلے۔ جن کے مضامین تو کیا عنوان بھی ایسی ناشائستہ الفاظ دلخراش ہیں کہ کسی شریف آدمی کے قلم سےنہیں نکل سکتے۔ایک اشتہار منشی قاسم علی کے اپنے قلم کا انہی کے نام پر نکلا ہے جس کانام لدھیانہ میں سکھا شاہی فیصلہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ایک شخص کو اپنا سردار بنایا جائے۔اپنا تمام فیصلہ ان کے سپرد کیا جائے۔سیاہ وسفید کا مختیار بنایا جائے؟مگر جب فیصلہ اپنی مرضی کے خلاف ہو تو اسی اپنے سردار کو اپنےحاکم کو بے نقط سنائیں ۔ اس سے شرم کا اور زیادہ مقام کیا ہوگا؟سردارصاحب نے اپنی معمولی کسر نفسی سے یہ لکھ دیا کہ میں علم عربی سے ناواقف ہوں ۔اسلامی کتابوں سے بے خبر ہوں وغیرہ جوکہ راست باز کے لیے بالکل موزوں ہے۔فریق ثانی نے بس اسی کو اپنی سند بنالیا کہ جو شخص ایسانا واقف ہے۔اس کا فیصلہ ہی کیا ؟سچ ہے: خوئے بدرا بہانہ بسیار مگر اہل دانش کے نزدیک ان کو ایسا کہتے ہوئے بھی خود ہی شرم کرنی چاہیے تھی۔کیوں کہ بوقت انتخاب سرپنچ کے ان کو چاہیے تھا کہ سردار صاحب کا علم عربی اور کتب تفسیر اور احادیث میں امتحان لے لیتے ۔کیا وہ اپنے ایمان اور دیانت سے کہہ سکتے ہیں کہ سردار صاحب کی سرپنچی بوجہ اس کے تھی کہ وہ عربی زبان کے ایک
Flag Counter