پہنچا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کے اس جہاں فانی سے بحیات مولوی ثناء اللہ صاحب رحلت فرمانے سے مرزا صاحب کی دعا مندرجہ اشتہار خداوند تعالیٰ نے قبول فرمائی اور اس قبولیت کا اظہار مرزا صاحب نے اپنی زبان مبارک سے کیا ۔ملاحظہ ہو تحریر بدر 25 اپریل 1907ء بکالم ڈائری جو اس رائے کا جزو تصور ہوگا۔ فریقین نےاپنی اپنی بحث میں کئی ایک باتوں پر زور دیا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیا مرزا صاحب کی کل دعائیں (سوائے شرکاء کے متعلق) قبول فرمانے کا خداوند تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا۔لیکن مجھے ان امورپر بحث کرنےکی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میری رائے ناقص میں مرزا صاحب کی دعا مندرجہ اشتہار بار گاہ الٰہی سے منظورفرمائی گئی۔اگر چہ میں اتنا درج کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ الہام مذکور کے لفظ بلفظ ترجمہ سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ الہام محض مقدمہ کی دعاؤں کے متعلق ہے جو استثناء کی گئی ہے وہ صرف شرکاء کے متعلق ہے ورنہ وہ الہام کل دعاؤں کے متعلق ہے۔ اگرچہ میرے واسطے صرف ایک میر مجلس کیسا تھ اتفاق رائے ظاہرکردینا کافی تھا اور کسی وجہ کے پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔لیکن دونوں میر مجلس صاحبان نے اپنی اپنی رائے ہم مشورہ ہوکر نہیں لکھی۔ اس واسطے میں نے ان کی راؤں سے کوئی مدد نہیں لی اور نہ ان کی رائیں پڑھی ہیں ۔صرف ان کا نتیجہ دیکھا ہے۔نتیجہ سے جب ان کی مختلف رائیں معلوم ہوئیں تو میں نے ان کی وجوہات کو پڑھنا بالکل نامناسب سمجھا۔خاص کر جب چوہدری فرزندعلی صاحب لدھیانہ میں موجود نہیں تھے،اندریں صورت مجھے اپنے ناقص خیال کی تائید میں چند ایک دلیلیں دینے کی ضرورت پڑی۔چونکہ میں عالم شخص نہیں ہوں اور نہ مجھے جیسا کہ میں نے پہلےدرج کردیا ہے۔کتب اسلام سے واقفیت ہے۔اگر میری کسی دلیل سے یاکسی تحریر سے کسی مسلمان صاحب کی ذرا بھی دل آزاری ہو تو میں نہایت ہی ادب سے معافی کا خواستگار ہوں ۔کیونکہ میں نے ارادتاً ایسا نہیں کیا بلکہ قواعد مباحثہ کو مد نظر رکھ کر صرف فیصلہ فریقین کے لیے مجبوراً اظہار رائے کیا ہے۔کیونکہ اگر میں گریز کرتا تو مجبوراً فریقین کو کسی اور ثالث کے تلاش کرنے کی ضرورت پڑی اور خواہ مخواہ تشویش میں پڑتے اور خرچہ وغیرہ کے زیزبار ہوتے۔ دستخط:سردار بچن سنگھ پلیڈر(بحروف انگریزی) |