عقیدہ مذہبی کا پیروکار ہو تووہ ہرگز اس سے منحرف نہیں ہوسکتا۔خواہ اس کے مخالفین کچھ ہی کیوں نہ کہیں ۔بلکہ اس قسم کی مخالفت اور مباحثہ ایسے معتقدوں کو اور بھی پختہ بنادیتے ہیں ۔ البتہ اس قسم کے مباحثوں کا آئندہ ہونے والے معتقد وں پر تھوڑا بہت اثر ضرور ہوتا ہے لیکن میرا یقین ہے کہ میرے جیسے شخص کی رائے کا اثر ایسے لوگوں پر بھی کچھ نہیں ہوگا۔لیکن چونکہ فریقین نے مجھے اپنا ثالث مقرر کیا ہے اور بدقسمتی سے ہر دو میر مجلسان میں اختلاف رائے ہوگیا ہے۔اس لیے حسب شرائط مباحثہ مجھ پر لازم آیا کہ میں اپنی رائے کا اظہار خواہ اس کی وقعت کچھ بھی ہو اس مباحثہ کی اغراض کےلیے ظاہر کروں ۔ فریقین نے بحث بڑی قابلیت اور لیاقت کے ساتھ کی ہے اور طریق بحث میں بالکل قانون شہادت کی تقلید فرمائی ہے لیکن جب میں دعویٰ کو دیکھتا ہوں تو مجھے بالکل تعجب پیدا ہوتا ہے جو صاحب اس مباحثہ میں مدعی بنے ہیں اور جو ہردو امور متنازعہ فیہ کو مثبت میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کا عقیدہ ہر دو امور میں متنازعہ فیہ کے مثبت میں ہونے کا نہیں ہے۔گو وہ اپنے دعوےکی اپنی ضمیرکے مطابق تصدیق کرنے کے لیےتیار نہیں ہیں ۔اگر معمولی قانون مندرجہ ضابطہ دیوانی کے مطابق کوئی شخص عرضی دعویٰ عدالت میں پیش کرے اور ساتھ ہی کہے کہ میں عرضی دعویٰ کے صحیح اور سچ ہونے کی حلفیہ تصدیق کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں تو عدالت فوراً اس کےدعویٰ کو نامنظور کردےگی۔خواہ اس کا مدعا علیہ اس کے دعویٰ کے اقبال کرنے کے لیے تیار کیوں نہ ہو۔جو کہ مدعا علیہ حال کی صورت نہیں ہے بلکہ وہ انکار دعویٰ پر اصراری ہے۔لیکن چونکہ یہ مباحثہ ایک مذہبی مسئلہ پر ہے اس واسطے اس پر قانون دیوانی عائد نہیں ہوسکتا ۔یہ خیالات میں نے اس واسطے ظاہر کئےہیں کہ ہمارے ملک میں کن حالات میں مباحثے میں پیدا ہوجاتے ہیں اور کن حالتوں میں ایک شخص کو محض مباحثہ کی غرض سے کیا حالت بدلنی پڑتی [1]ہے اور اس طرح سے میر قاسم علی صاحب جو مرزا صاحب کے صاحب وحی الہام ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔امور متنازعہ کی تردید میں کھڑے ہوتے ہیں ۔فی الواقعہ یہ بھی میری رائے ناقص میں عجائبات زمانہ میں ایک عجوبہ ہے۔ امور متنازعہ کے فیصلہ کے لیے اشتہار کی عبارت کو غور سے پڑھنا نہایت ہی ضروری ہے اور یہ دیکھنا بھی |