ہذا کا جزو تصور ہوگا شرائط مباحثہ کی شرط یہ ہے کہ رائے دہندہ اگر مسلمان ہے تو خدا کی قسم کھا کر اپنا تحریری فیصلہ بحث کے خاتمے پر لکھے گا اور جو رائے مباحثےکے متعلق بغیر خدا کی قسم کھانے کے کوئی ثالث یا میر مجلس دے گا وہ قابل وقعت نہ ہوگی۔چوہدری فرزند علی صاحب میر مجلس منجانب میر قاسم علی صاحب کے فیصلہ پر قسم وغیرہ کے متعلق کوئی اندراج نہیں ہے۔لیکن چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے بیان میں جو میں نے آج لیا ہے عدم تعمیل شرط بالا پرعذر نہیں اور یہ ایک معمولی سہو ہے اور خاص کہ جبکہ چوہدری فرزند علی صاحب بخوبی جانتے تھے کہ یہ فیصلہ حسب شرائط حلفی لکھنا ہوگا۔اندریں صورت کہ بر خلاف فیصلہ قابل وقعت ہے خاصکہ جب کہ وہ فریق جس کے برخلاف فیصلہ مذکور ہے زیادہ اصرار نہیں کرتا ہے۔ مجھے سخت افسو س ہے کہ وہ معزز صاحبان جو ہر دوفریق کی مذہبی کتابوں سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں ۔ اختلاف رائے ظاہر کریں جب دو عالموں میں جو فریق کے ہم مذہب ہوں (یہ سردار بچن سنگھ کا اپنا خیال ہے) اختلاف رائے ہو تومیرے جیسے نا واقف اور غیر مذہبی شخص کی رائے کیا وقعت رکھتی ہے۔میں امید کرتا ہوں اور تمام صاحبان سے التماس کرتا ہوں کہ وہ میری رائے کو کسی طرح سے بھی اپنے مذہبی عقائد کے مخل تصور نہ فرمائیں ۔ بے شک شرائط مباحثہ کی رو سے ایک فریق کی جیت اور دوسرے فریق کی ہار میری رائے سے ہوسکتی ہے لیکن میری رائے کسی صورت میں بھی کسی مسئلہ مذہبی کی فیصلہ کن نہیں [1]ہوسکتی اور یہ جیت اور ہار بھی ویسی ہی ہوگی۔جیسا کہ دو متخاصمین کسی چند سالہ معصوم اور دنیا سے بالکل ناواقف بچے سے التماس کریں کہ جس شخص کے سر کو تو ہاتھ لگا دے گا وہ فتحیاب تصور ہوگا اور وہ بچہ ان کے کہنے سے بلا جانے کسی امر کی ایک شخص کےسر کو ہاتھ لگا دیوے۔فی الواقعہ میری واقفیت دربار اسلام میں جو کہ ایک وسیع سمند ر ہے اس نادان اور ناواقف بچہ سے بدر جہاکم ہے اور میری رائے کا کوئی اثر کسی اور شخص پر نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی اور شخص اس کا پابند ہوسکتا ہے اور میرا پکا یقین ہے کہ فریقین بھی اپنے اپنے مذہبی مباحثہ عقائد کے بموجب ہرگز پابند نہیں ہوں گے۔سوائے اس بات کے کہ بموجب شرائط مباحثہ تین سو روپے کی رقم کی ہار جیت ہوجاوے۔میں نے کئی ایک مذہبی مباحثے دیکھےہیں جن کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔جب کوئی شخص ایک خاص |