Maktaba Wahhabi

177 - 290
کی عمومیت کو تسلیم بھی کرلیتا تواس سے صرف یہی ثابت ہوتا کہ مرزا صاحب کی یہ دعا منظور ہونی چاہیے تھی۔نہ یہ کہ فی الواقعہ منظور ہوئی بھی ان دونوں دعوؤں میں بڑا بھاری فرق ہے مگر میر قاسم علی صاحب نے دکھایا کہ الہام مندرجہ بالا ایک خاص مقدمہ سے متعلق تھا۔کیونکہ اس الہام کے بعد ایک اور مقدمہ میں مرزا صاحب نے اپنے شرکاء کے خلاف دعا کی اور اس دعا کو خدا تعالیٰ نے منظور فرمایا۔(میرے پاس اس کے متعلق حوالہ نہیں وہ دیکھ لیے جائیں ) اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ خود مرزا صاحب کا عقیدہ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے متعلق کیا تھا۔تو معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب اپنی ہر ایک دعا کا قبول ہوجانا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے۔چنانچہ اسی ’’أجیب کلَّ دعائک، إلّا فی شرکائک‘‘(یعنی میں تمہاری وہ دعائیں جو تمہارے شرکاء کے متعلق ہوں قبول نہ کروں گا)والے الہام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی بعض دعائیں نامنظور ہوجاتی تھیں اور حقیقت الوحی سے بھی(دیکھو اقتباسات منسلکہ)مرزا صاحب کا صرف یہی دعویٰ پایا جاتا ہے کہ ہماری دعائیں بہ نسبت دوسرے لوگوں کے کثرت کے ساتھ شرف قبولیت حاصل کرتی ہیں ۔مولوی ثناء اللہ صاحب نے حقیقت الوحی کے صفحات 5 سے 11 کے حوالہ سے یہ بیان کیا تھا کہ مرزا صاحب کی کل دعاؤں کا قبول ہونا لازمی تھا۔میں نے حقیقت الوحی کے صفحات مذکورہ کو پڑھا ہے۔اس سے مولوی صاحب کے بیان کی ہرگز تصدیق نہیں ہوتی۔ان صفحوں میں دعا کا کہیں مطلق ذکر تک بھی نہیں ۔ان میں خوابوں اور الہاموں پر بحث ہے مگر خواب اور الہام اور چیز ہے اور دعا اور چیز۔پس شق(ب) کی نسبت بھی میری رائے یہ ہے کہ مولوی صاحب اپنے دعویٰ کو ثابت نہیں کرسکے۔ فرزند علی عفا اللہ عنہ ہیڈکلرک قلعہ میگزین فیروز پور 20 اپریل 1912ء۔ نوٹ: میرے پاس فریقین کی تقریروں کی نقلیں نہیں ہیں اس لیے میں نے یہ فیصلہ اپنے مختصر نوٹوں کی بنا پر لکھا ہے۔(فرزند علی)
Flag Counter