ربانی نازل ہوجاتا تو مرزا قادیانی کی اصلاح پتھر تک بھی کردیتے۔جیسا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود اپنی تقریر(2)میں بیان کیا کہ مرزا قادیانی اپنی تصانیف میں ان کے چھپتے وقت تک ضروری تصحیح کرتے رہتے تھے۔یا اگر بعد چھپ جانے کے بھی اشتہار کی تصحیح کی ضرورت ہوتی تو یہ درستی ہاتھ سے کردی جاتی۔ جیسا کہ حقیقت الوحی کی تاریخ اشاعت کے مطابق کیا گیا تھا۔دیکھو اس کتاب میں سر ورق جس کے نیچے تاریخ اشاعت 20 اپریل 1907ء سے بدل کر 15 مئی1907 ہاتھ سے تمام کاپیوں میں لکھی گئی۔ اپنےآخری پرچہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے بیان کیا کہ در اصل تو اشتہار مذکور لکھا حکم الٰہی سے ہی گیا تھا۔مگر چونکہ مرزا قادیانی نے عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور میں ایک دفعہ عہد کیا تھا کہ میں کسی موت وغیرہ کے متعلق آئندہ الہامی پیشین گوئی شائع نہ کیا کروں گا۔اس لیے قانون کی زد سے بچنے کی غرض سے اشتہار میں یہ لکھ دیا کہ میں الہام یا وحی کی بنا پر یہ پیشگوئی نہیں کرتا۔اس دلیل کا غلط ہونا بدیہی طور پر ظاہر ہے۔کیونکہ اگر مرزا قادیانی کے لیے کسی شخص کی موت کی پیشگوئی کو الہام کی بنا پر شائع کرنا ممنوع تھا تو بغیر الہام کے محض اپنی مرضی سے اس قسم کی پیشگوئی کا شائع کرنا زیادہ قابل مواخذہ ہونا چاہیے۔ رہا فقرہ نمبر3۔۔۔۔ جس میں مشیت ایزدی کی تحریک کو حکم خداوندی کے ہم پلہ بیان کیا گیا۔اس کی تردید میر قاسم علی صاحب نے خاطر خواہ طور پر کردی ۔اس لیے اس امر کی نسبت بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آتی۔پس میری رائے میں مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے دعویٰ کی شق(1) کا کوئی ثبوت بہم نہیں پہنچا سکتے۔ اب میں شق(ب) کو لیتا ہوں کہ آیا حضرت مرزا صاحب کو اشتہار مورخہ15 اپریل 1907 ء کی دعا کی قبولیت کا الہام بارگاہ الٰہی سے ہوا۔اس کا ثبوت مولوی ثناء اللہ صاحب کے ہاتھ میں ایک تو وہ الہام تھا جو 25 اپریل1907ء کے بدر میں شائع ہوا۔اور جو شق(1) کے ثبوتی فقرہ(2) میں درج ہے۔:’اعنی اجیب دعوۃةالداع‘(ترجمہ)میں دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں یہ تو وہی 14 اپریل کی ڈائری ہےجس کا 15 اپریل 1907ء کے اشتہار سے غیر متعلق ہونا ثابت ہوچکا ہے ۔دوسرا ثبوت یہ تھا کہ ایک پرانا الہام مرزا صاحب کو یہ ہوچکا ۔’’اجیب کل دعائک الا فی شرکائک۔‘‘(ترجمہ:میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کےجو تیرے شریکوں کے متعلق ہوں )اگر فریق ثانی اس الہام |