کچھ فرمایا۔بعض مضامین کو اپنی اہمیت اور ضرورت لحاظ سے اور بعض کو گنجائش اخبار کے لحاظ سے بہ نسبت دوسری تاریخوں کی ڈائری کے اخبار کے کالموں میں جلد تر جگہ مہیا کردی جاتی تھی۔ بہر حال سلسلہ یہ تھا کہ ڈائری بلا ترتیب تاریخ شائع کردی جاتی تھی۔ ایک دن کی ڈائری کو دوسری سے علیحدہ کرنے کےلیے ہر ایک روز کی ڈائری کےسر پر اس کی تاریخ لکھ دی جاتی تھی۔اگر تواریخ کی بےترتیبی صرف اسی ایک پرچہ بدر میں ہوتی جس میں 14 اپریل1907ء کی ڈائری درج تھی تو البتہ اعتراض قابل غور ہوتا مگر جبکہ ہمیشہ ڈائریاں اسی بے ترتیبی کے ساتھ چھپتی تھیں تو محض اس عدم ترتیب کی بنا پر ڈائری کے اندراج ہرگز ناقابل اعتبار نہیں ٹھہرتے۔ مولوی صاحب کے دوسرے سوال کا جواب یعنی14 اپریل1907ء کی ڈائری کی سابقہ تحریر حضرت مرزا صاحب سے متعلق تھی۔میری رائے میں فریق ثانی کے ذمہ اس کا جواب دینا واجب نہ تھا مگر جب دیا گیا تو اس پر غور کرنا ضروری ہے۔پس جواب جو اس سوال کا میر قاسم علی صاحب نے دیااس کی صحت پر مجھے اطمینان نہیں ہوا۔ہاں امکان تو ضرورہے کہ جناب مرزا قادیانی کا اشارہ اس 14 اپریل کی ڈائری میں انہی مضامین کی طرف ہو جن کا حوالہ میر قاسم علی صاحب نےدیا ہے مگر اس کاکوئی ثبوت نہیں بہم پہنچایا گیا اور میر صاحب کا بیان صرف قیاس پر مبنی تھا جو حجت نہیں ہوسکتا ۔بہر حال میری رائے میں یہ امر ظاہر ہے کہ 14 اپریل 1907ء کی ڈائری کا اشارہ خواہ کسی سابق تحریر کی طرف ہو۔15 اپریل کے اشتہار کی طرف ہر گز نہیں[1]اور جب خودحضرت مرزا قادیانی اسی 15 اپریل کے اشتہار میں فرماتے ہیں ’’ یہ کسی الہام یا وحی کی بنا پر پیشگوئی نہیں ۔بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے۔‘‘تو اس صریح بیان کے خلاف کوئی دعویٰ کسی طرح قائم اور ثابت [2]ہوسکتا ہے؟ نیز یہی اعلان کہ اس اشتہار کی بناکسی وحی یا الہام پر نہیں اس وہم کا بھی ازالہ کرتا ہے کہ شاید یہ اشتہار مجریہ 15 اپریل لکھا۔اس تاریخ سےچند روز ما قبل گیا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بعد میں اس کی تصدیق میں الہام |