فرزند علی صاحب منصف احمدی فریق کا بلا حلف فیصلہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! میں نے اس مباحثہ کو جو مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری اور میر قاسم علی صاحب احمدی دہلوی کے مابین17 اپریل1912 کو لدھیانہ میں ہوا خوب غور سے سنا۔جو رائے میں نے اس مباحثہ کے متعلق قائم کی ہے اس کو ذیل میں بیان کرتا ہوں اس مباحثہ میں دعویٰ منجانب ثناء اللہ صاحب یہ تھا کہ: (الف)۔۔۔۔جو اشتہار15 اپریل 1907 کو جناب مرزا قادیانی نے بعنوان ’’مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ دیاخدا تعالیٰ کے حکم سے تھا۔ (ب)۔۔۔۔ اس اشتہار میں جو دعا فیصلہ کے متعلق تھی اس کا جواب خدا تعالیٰ نے الہامی طور پر یہ دیا کہ ہم نےاس دعا کو منظور فرمالیا۔ شق(ا)۔۔۔ کے ثبوت میں جو موٹے موٹے دلائل مولوی ثناء اللہ صاحب نے دئیے وہ یہ تھے کہ: 1۔۔۔حضرات انبیاء علیہم السلام کا یہ طریق نہیں تھا کہ اپنے مشن کے متعلق کوئی متحد یانہ فیصلہ کن تجویزیں محض اپنےارادے اور مرضی سے کریں۔ 2۔۔۔15 اپریل 1907 کے اشتہار کےبعد 25 اپریل 1907 کے بدر میں مرزاقادیانی کی طرف سے ایک تقریر اس مضمون کی شائع ہوئی کہ ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہےیہ در اصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خداہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اور رات کوجب مرزا صاحب کی توجہ اس طرف تھی تو الہام ہوا۔’أجیب دعوۃ الداع‘(ترجمہ:میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ) 3۔۔۔13 جون 1907 میں ایک خط بنام مولوی ثناء اللہ صاحب درج ہے اس میں لکھا تھا کہ مشیت ایزدی نےمرزا صاحب کے قلب میں تحریک کرکے فیصلہ کی ایک اور راہ نکال دی۔ فقرہ(1)۔۔۔ نہ تو اس دعویٰ کی تائید اور وضاحت میں مولوی ثناء اللہ صاحب نے کوئی مثالیں بیان کیں اور نہ میر قاسم علی صاحب کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا۔ |