مطلقاً ذکر نہیں ۔مولوی صاحب نے منشی قاسم علی صاحب کےعذر کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ اخبار مذکورہ 4 اپریل اور حقیقت الوحی میں کسی ایسی دعا کا ذکر نہیں جو مولوی صاحب کے حق میں ہواسے اخبار بدر 25 اپریل والے الہام کا حوالہ اور مصداق کہہ سکیں اور کتاب حقیقت الوحی تو اس وقت تک شائع نہیں ہوئی تھی کہ مرزا قادیانی اس کا حوالہ دےسکیں ۔اس امر کی تائید ہم اس سے بھی پاتےہیں کہ خاتمہ بحث پر جناب سردار بچن سنگھ صاحب بی اے پلیڈر گورنمنٹ ایڈوکیٹ لدھیانہ نے جو بتراضی فریقین ثالث مقرر کیے گئے تھے۔منشی قاسم علی صاحب سے سوال کیا کہ آیا آپ سوائے 4 اپریل کے بدر اور حقیقت الوحی کے حضرت مرزا قادیانی کی کوئی اور تحریر بھی بتلا سکتے ہیں تو انہوں نے جواب نفی میں دیا۔مولوی صاحب نے جویہ بیان کیا کہ 15اپریل كے اشتهار كا مسوده 14 اپریل سے پیشترلکھاگیا ہے یہی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے چونکہ مرزاقادیانی کے الفاظ جو 25اپریل سےپیشترلکھا جا چکاتھااور وہ مریدوں میں مشہور تھا۔ اس لیے مرزا قادیانی نے صرف اسی اشارہ پر کفایت کی کہ جو کچھ لکھا گیا اور ہم عام عادت بھی یہ پاتے ہیں کہ مضامین کاتب کے کاپی لکھنے سے پیشتر عمل کرکے کاتب کودیئے جاتے ہیں اور وہ أخص دوستوں میں طبع سے پیشتر ہی مشہور ہوجاتےہیں ۔مولوی صاحب نے یہ بیان کیا کہ ڈائری کی تاریخیں غیر مرتب ہیں ۔اس کے جواب میں منشی قاسم علی صاحب نے کہا کہ تاریخیں صرف اسی پرچہ میں غیر مرتب نہیں ہیں بلکہ دیگر پرچوں میں بھی یہ بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔ہماری رائے میں یہ عذر مولوی صاحب کی جرح کی تردیدنہیں کرتا بلکہ اس کوتقویت دیتا ہے۔کیونکہ ایک قصور دوسرے قصور کی تائید کرتا ہے نہ کہ تردید۔نیز یہ کہ 14 اپریل اور 11 اپریل کی غیر مرتب ڈائری ایک ہی پرچہ میں ہے مختلف پرچوں میں نہیں کہ منشی قاسم علی صاحب کی بیان کردہ وجہ کی گنجائش ہو۔بہرحال اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں بھی ہم مولوی صاحب مدعی کی جانب راجح پاتے ہیں ۔ منشی قاسم علی صاحب نے ڈیفنس میں مولوی ثناء اللہ صاحب مدعی کی دوسری خاص دلیل کا جواب یہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنے رسالہ ُترکِ اسلام میں لکھا ہے کہ سب کام نیک و بد خدا کی مشیت سے ہوتے ہیں ۔پس ان کے ساتھ رضاء الٰہی ضروری نہیں ۔لہٰذا اگرچہ اخبار بدر میں یہ لکھا ہے کہ اس طریق فیصلہ کی تحریک خدا کی |