اس کا اثر اس مشن پر پڑتا ہے جس کےلیے مرزا قادیانی مامور کیے گئے۔ دلیل خاص: جو مولوی صاحب نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ خاص اسی دعا کی قبولیت کا الہام مرزا قادیانی کی طرف سے اخبار بدر قادیاں مؤرخہ 25 اپریل 1907 میں طبع ہوچکا ہےجس میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ درحقیقت اس کی بنیاد خدا کی طرف سے رکھی گئی ہے۔نیز اس اخبار مورخہ 13 جون 1907 میں جو خط مولوی ثناء اللہ صاحب مدعی کے نام طبع ہوا ہے۔اس میں تشریح کی گئی ہے کہ اس طریق فیصلہ(15 اپریل 1907) کے اشتہار کی دعا کی تحریک مشیت ایزدی سے ہوئی ہے۔پس میرا یہ دعویٰ بھی ثابت ہے کہ مرزا قادیانی نے یہ دعا خدا کی تحریک سے کی اور یہ بھی کہ اس کی قبولیت کاالہام آپ کو ہوگیا تھا۔ مولوی صاحب مدعی نے اپنے اثبات دعویٰ کے ضمن میں بطور دفع دخل یہ بھی بیان کردیا ہے کہ بیشک اس اشتہار میں مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی کسی الہام سے نہیں کی گئی۔لیکن یہ فریق ثانی کو مفید نہیں ۔کیونکہ ظاہر ہے کہ اس کلمہ میں اور 25 اپریل کی ڈائری میں تعارض ہے اور تطبیق دونوں میں اس طرح ہوسکتی ہے کہ اشتہار لکھتے وقت خدا تعالیٰ نے ان پر یہ ظاہر نہیں کیا تھا ۔لیکن بعد میں الہام کردیا چونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا۔دیگر یہ کہ چونکہ مرزاقادیانی صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر گورداسپوری کی عدالت میں ایک خاص مقدمہ میں باضابطہ اقرار داخل کرچکے تھے کہ کسی شخص کےحق میں ڈر والاالہام ظاہر نہیں کروں گا۔اس لیےبھی مرزا قادیانی نے نفی الہام کی مصلحت سمجھی۔کیونکہ وہ میری موت کے متعلق تھی۔یہ ہے خلاصہ ان کے اثبات دلائل کا اب اس ڈیفنس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں جوفریق ثانی نے پیش کیا۔ فریق ثانی یعنی منشی قاسم علی صاحب نے مولوی صاحب کی پہلی دلیل عام کا کوئی جواب نہیں دیا اور تردید نہیں کی۔جس سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ رسول برحق کبھی خدا کی اجازت کے بغیربھی اپنے مخالفین کے ساتھ طریق فیصلہ کرسکتا ہے۔دوسری دلیل عام کا جواب انہوں نے یہ دیا ہےکہ مرزا قادیانی کا دعویٰ ہر دعا کی قبولیت کا نہیں ہے بلکہ اکثر دعاؤں کا ہے اور الہام :’’أجیب کلَّ دعائک، إلّا فی شرکائک‘‘کا یہ جواب دیاکہ یہ خاص واقعہ کے متعلق ہے جس کے جواب میں مولوی صاحب مدعی نے کہا کہ اس کلام کے دو جز ہیں ایک مستثنیٰ منہ۔ دوسرا مستثنیٰ ،مستثنیٰ منہ کلیہ ہے جس میں سے صرف اس دعاکو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو مرزا قادیانی کے کنبہ کے متعلق ہو۔اور چونکہ میں (مولوی صاحب مدعی) مرزا قادیانی |