Maktaba Wahhabi

158 - 290
بالفاظ قرآن بھی لکھوایا تھا کہ جناب موصوف کو کئی ایک مقامات پر الہام ہوا ہے۔﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾(تذکرہ ص378 طبع ِ سوم)جس کا مطلب میں نے صاف لفظوں میں بتلایا تھا کہ جناب مرزاقادیانی کی نسبت بقول ان کے خدا فرماتا ہے کہ مرزا قادیانی بغیر وحی کے نہیں بولتے۔اس آیت اور الہام کی تفسیر بتلانے میں میں نے دینی معاملہ کا لفظ بڑھایا تھا کیونکہ انبیاء علیہم السلام اور مامورانِ باری تعالیٰ کو اپنی ضروریات طبعیہ میں بولنے کے لیےوحی یا الہام کی ضرورت نہیں ہوتی۔دینی معاملہ میں بغیروحی کے نہیں بولتے۔خصوصاًکسی ایسے معاملہ کی نسبت جو اشد مخالفوں کے سامنےبطور فیصلہ ظاہر کیا جائے۔ مرزاقادیانی مجھ کو اپنے مخالفوں میں بڑھا ہوا مخالف خیال کرتے ہیں ۔[1] دوستو!خود ہی غور کرو مثنیٰ وفرادا غور کرو ۔خلوت اورجلوت میں غور کرو۔ایک ایسے اشد مخالف کے مقابلہ میں ایک مامور خدا فیصلہ کی صورت شائع کرتا ہے اور اس کی بابت قرار کرتا ہے کہ مشیت ایزدی سے یہ تحریک میرے دل میں ہوئی ۔اس کو آج منشی قاسم علی صاحب دنیاکے دیگر واقعات مثلاً زنا چوری وغیرہ سے تشبیہ دیتے ہیں ہمارے ثانی پریذیڈنٹ خصوصاً اس خیال کو ملحوظ رکھیں ۔شروع میں آپ نے عجیب منطق سے کام لیا ہے۔آپ لکھتے ہیں ایسا ہونا چاہیے تھا کہ مرزا قادیانی کو پروردگار حکم دیتاکہ ہمارےحضور میں درخواست پیش کرو۔ پیغمبرِاسلام علیہ السلام کی جتنی پیشگوئیاں موجود ہیں جن کو آپ بھی کفر و اسلام کے مباحثہ میں پیش کیا کرتے ہیں کیا کوئی ایسی آیت، حدیث دکھا سکتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کو حکم ہوا ہو کہ تم میرے سامنے درخواست پیش کرو۔ درخواست کی ضرورت ہےتو آپ اٹھتے ہی اس آیت کی تفسیر کردیجیے جس میں ر وم (سلطنت روما) کےمغلوب ہونے اور مغلوب کے بعد غالب ہونے کی پیشگوئی مذکور ہے کیا یہ پیشگوئی قرآنی فیصلہ نہ تھا۔جناب پیغمبر خدا علیہ السلام نے بدرکی لڑائی میں فرمایا تھا کہ ابو جہل یہاں گرےگا۔فلاں وہاں گرےگا۔کیا اس کے لیے کوئی درخواست تھی؟دوسرا یہ کہ بقول آپ کے ایسا ہوتا کہ :’’اشتہار مورخہ15 اپریل میں (مرزا)
Flag Counter