بہرحال مولوی صاحب یہ خود مانتے ہیں کہ اشتہار 15 اپریل والے میں توبیشک یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ اشتہار کسی حکم کی بنا پر نہیں بلکہ میری طرف سے بصورت درخواست یا عرضی کے ہے اور یہ بھی مولوی صاحب تسلیم فرماتے ہیں کہ جس وقت اشتہار دیا گیااس وقت تو ان کو یہ علم نہیں تھا کہ میں خدا کے کسی حکم کی تعمیل کررہا ہوں بعد تعمیلِ حکم حاکم نے ان کو بتایا کہ یہ ہمارے حکم سے تم نے اعلان کیا ہے پھر مرزا قادیانی نے بھی فوراً شائعکردیا کہ یہ درخواست میری خدا کے حکم کے مطابق ہے جس کاآج پتہ لگا ہے۔سبحان اللہ کیا عجیب استدلال ہےکہ حکم دس روزبعد دیا جائے یا دس روز بعد اس کا پتہ لگے مگر ملازم یاخادم قبل صدور حکم کی تعمیل کرکے رکھ دے۔لہٰذا یہ استدلال دعویٰ مولوی صاحب کو کسی طرح بھی ثابت نہیں کرسکتا۔اس میں کہیں بھی یہ تونہیں لکھا کہ 15 اپریل والا اشتہار بحکم خداوندی دیا گیاہے 25 اپریل کے بعد میں صرف اتنا لکھا ہے کہ ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ در اصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے۔15 اپریل والے اشتہار میں لکھا جانا اس میں کہاں درج ہے۔دعویٰ تو 15 اپریل والے اشتہار کے متعلق ہے جو خاص ہے اور دلیل ایک عام پیش کرتے ہیں جس میں مولوی ثناءا للہ صاحب کے متعلق یوم تقریر سے پیشتر جو لکھا گیا ہے اس کا منجانب اللہ بنیاد رکھا جانا بتایا ہے۔دوم13 جون والے بدر میں جو لفظ ’’مشیت ایزدی‘‘ ہے اس سے مولوی صاحب اس اشتہار کا بحکم خداوندی دیا جانا ثابت کرتے ہیں ۔جو یہ بھی درست نہیں مشیت ایزدی کو تو رضا الٰہی بھی مستلزم نہیں ۔چہ جائیکہ وہ بحکم خداوندی ہو۔مولوی صاحب نے ترک اسلام کے ص 35 پر مشیت اللہ کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ: ’’مشیت اللہ خدا کے قانونِ مجریہ کا نام ہے۔جو خدا کی رضا کو مستلزم نہیں ۔ص35 اورہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ زانی زنا کرتا ہے تو اس کی مشیت سے کرتا ہے چور چوری کرتا ہے تو اس کے قانون سے کرتا ہے۔‘‘ پھر میں نہیں سمجھتا ہے کہ مشیت ایزدی کو رضا الٰہی کا لازم نہ ہونا مان کر بھی صرف لفظ مشیت ایزدی سے اپنا سے اپنا دعویٰ ثابت کردیا جائے کہ یہ اشتہار بحکم خدا وندی سے تھا مشیت ایزدی سے توزنا اور چوری بھی منسوب ہوسکتی ہے۔ اگر مرزا صاحب کے اشتہار مشیت ایزدی سے دیا جانا لکھا ہے تو اس کو رضا الٰہی کیوں سمجھ لیا گیا۔ والسلام! |