ہے۔بلکہ اس کی قبولیت کا الہام بھی شائع کیا:﴿اُجِیبُ دَعوَۃَ الدَّاعِ ﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں خدا فرماتا ہےمیں دعا کرنے والوں کی قبول کرتا ہوں ۔مرزا قادیانی کی توجہ پر یہ الہام ہونا اس بات کی صاف دلیل ہے کہ جناب موصوف کو اس دعا کی قبولیت کا الہام قطعی ہوچکا تھا۔مسلمانوں کےاعتقاد میں الہام بالفاظ قرآنی ہوتو بہت زیادہ قوت رکھتا ہے بہ نسبت دیگر الفاظ کے ۔الہام مذکورہ چونکہ الفاظ قرآنی میں ہے اس لیے قطعی قبولیت کو ثابت کرتا ہے۔فریق ثانی کو میری تطبیق پسند نہ ہو تو اس اثبات ونفی میں تطبیق دینا ان کا فرض اول ہے۔کیونکہ وہ مرزا قادیانی کے مصدّق ہیں اور قرآن میں غلط الہامات کی علامات یہی مذکور ہے کہ ان میں نفی اثبات کا اختلاف ہوتا ہے جس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ قائل ایک کلام میں کاذب ثابت ہوتا ہے۔پس فریق ثانی کا بحیثیت مصدّق فرض ہے کہ اس اختلاف میں پابندی قواعد علمیہ واصول مسلّمہ محدثین ومبصرین تطبیق دے ابوالوفاء ثناء اللہ بقلم خود! جواب دعویٰ یعنی منشی قاسم علی احمدی قادیانی کا پرچہ نمبر اول بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم رب یسروتمم بالخیر! جناب مولوی فاضل صاحب نے اپنے مضمون کو جس تمہید سے شروع کیا ہے اس سے نفس دعویٰ مولوی صاحب کو کوئی تعلق نہیں ۔یہ تمام وعظ ولیکچرار اس دعویٰ کو کہ:‘‘5 اپریل والا اشتہار مرزا قادیانی نے حکم خداوند دیا تھا اور دعا مندرجہ اشتہار مذکور کی قبولیت کا خدا نے وعدہ فرمایا تھا۔‘‘ کسی طرح ثابت نہیں کرتا۔ مولوی صاحب یعنی مدعی کا فرض تھاکہ وہ اپنادعویٰ دو طرح سے ثابت فرماتے اول ایسا حکم منجانب اللہ وہ اس اشتہار کے متعلق پیش کرتے جس میں وہ مرزا قادیانی کو خدا نے یہ حکم دیا ہوتا کہ تم ایسی درخواست ہمارے حضور میں پیش کرو۔یا مرزا قادیانی نے کہیں فرمایا ہوتا کہ اشتہار مورخہ15 اپریل 1907ء میں نے حسب الحکم خداوند ِ کریم شائع کیا ہے۔جبکہ یہ دو نوں صورتیں مولوی صاحب نے پیش نہیں فرمائی ہیں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ دعویٰ کس طرح ثابت ہوگیا کہ 15 اپریل والا اشتہاربحکم خداوندی تھا۔نہ کوئی حکم خدا |