ایک معمولی تنخواہ پر (1864ء تا1868ء ) ملازم تھا۔اُس نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ آپ کے پاس عموماًآتا اور دونوں اندرونِ خانہ بات چیت کرتے ۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں ۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا ۔ اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آ گئے۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں ۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا ، ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔‘‘[1] انگریز کا شکر اور اللہ شکر ایک ہی ہے(معاذاللہ) مرزا اگرچہ اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلام اور مسلمانوں کا وفادار نہ ہو لیکن انگریز کی وفاداری و تابعداری اُس کی رگ رگ میں رچی اور بسی ہوئی تھی لہٰذا اس سے متعلق مرزا کے جذبات ملاحظہ فرمائیں : ’’خداتعالیٰ نے ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض کیا ہے۔ جیسا کہ اس (خدا کا) شکر کرنا، سو اگر ہم اس محسن گورنمنٹ کا شکر ادا نہ کریں یا کوئی شر اپنے ارادے میں رکھیں تو ہم نے خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا شکر اور کسی محسن گورنمنٹ کا شکر جس کو خداتعالیٰ اپنے بندوں کو بطور نعمت عطاء کرے۔ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔‘‘ [2] جہاد اور مرزا : (وفاداری ہو تو ایسی) مرزا کے نذدیک ’’جہاد ‘‘ قطعی حرام ہے اویہ مرزا کی زندگی کی واحد رائے ہے جو ابتداء سے انتہا تک ایک ہی رہی کہ ’’ انگریز کی اطاعت فرض اور انگریز کے خلاف جہاد کرنا قطعی حرام ہے ۔‘‘ اور مرزا نے تاحیات اس مؤقف کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ملاحظہ فرمائیں : |