Maktaba Wahhabi

126 - 290
نےخاص طور پر مرزا اور اُس کے خاندان کا انتخاب کیا اور اسطرح گورے انگریز تو چلے گئے لیکن کالے انگریز چھوڑ گئے جس کی ہمارے معاشرہ میں مختلف شکلیں پیدا کی گئیں جن میں دیسی لبرلز، سیکیولرز کے ساتھ ساتھ سرِ فہرست قادیانی و مرزائی شامل ہیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کا جذبہ ایمان و جہاد بھی عروج پر تھا اور دشمن اچھی طرح اُسے بھاپ چکا تھا ایسی صورت حال میں مسلمانوں میں سے اس ایمانی و جہادی جذبے کو ختم کرنے کے لیے صلیبیوں کو ایک ایسے ایجنٹ کی ضرورت تھی جو صلیبیوں کی حمایت اور مسلمانوں کے عقائد میں بگاڑ پید ا کرکے حکومتِ برطانیہ کے خلاف کی جانے والی جہادی تگ و تازکو روکنے میں اپنا فعّال کردار ادا کر سکے۔ اس مقصد کے لیے صلیبی انگریزوں کی نظر ِکرم ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں مقیم ایک شاطر اور مخبوط الحواس شخص مرزا غلام احمد قادیانی پر ٹھہری۔ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف ادیب اور خطیب آغا شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’تحریکِ ختم نبوت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ: ’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میں برطانوی عمال کی ان یادداشتوں کا جائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کے لیے 1869ء کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں ، بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتا چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سلب کرکے انھیں کس طرح رام کیا جا سکتا ہے۔ اس وفد نے واپس جا کر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نے The Arrival of British Empire in India (ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ) کے عنوان سے رپورٹ لکھی انھوں نے لکھا : ’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو’’ اپاسٹالک پرافٹ‘‘ Apostolic Prophet(حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘ ( تلخیصات) مزید ملاحظہ فرمائی: (جیساکہ یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ )مرزا غلام احمد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں
Flag Counter