Maktaba Wahhabi

125 - 290
مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ۔ ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں ۔‘‘ [1] قارئینِ کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا ! مرزا کی ان عبارتوں کا ایک ایک جملہ اپنے اندر ایک مکمل داستان رکھتا ہے ، اُسوقت کہ جب گورے انگریز ، وہ صلیبی انگریزجنہوں نے تجارت کی آڑ میں سرزمینِ ہند میں داخل ہو کر دجل و فریب اور سازش کےتحت مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کو ختم کرکے ناجائز طور پر قبضہ کر لیا تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ مسلمان محض اپنے ایمان کی کمزوری ، بد عملی اور ان میں موجود منافقوں کی وجہ سے ہی شکست سے دوچار ہوئے لیکن پھر ایک وقت آیا جب مسلمانوں پر اُن انگریزصلیبیوں کی حقیقت، اُن کے برِّصغیر میں آنے کے مقاصداچھی طرح واضح ہوچکے تھے ،عوام و خواص میں ایمانی غیرت جاگ اٹھی تھی اور وہ انگریز کے خلاف جہاد پر متفق ہوچکے تھے اور محاذ گرم ہوچکا تھا، میدان سجھ چکا تھا ، انگریز کی غلامی، ظلم و بربریت سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوچکی تھیں ، جان اور مال کی قربانیاں دی جارہی تھیں ، اُسوقت انگریز کے ٹکڑوں پر پلنے والامرزا کا یہ خاندان تھا جو سر کے بالوں سے لیکر پاؤں کے ناخنوں تک انگریز کے احسانات کے بوجھ تلےدبا کسی بھی طرح انگریز کے ساتھ اپنی وفاداری اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ اپنی غدّاری ثابت کرنے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار تھا اور یہی وجہ تھی کہ مرزا اور اُس کے خاندان نے ہر وہ کام کیا جس سے انگریز کے مفادات کو تقویت اور اسلام و مسلمان کمزور ہوں لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انگریز نے اس خاندان کا باقاعدہ انتخاب کیا ، انہیں خرید ا اپنے خبیث مقاصد و مفادات کے حصول کے لیے ،چونکہ انگریز یہ سمجھ گیا تھا کہ اب برِّصغیر میں اس کی حکومت تھوڑے ہی عرصے کی مہمان ہے لہٰذا وہ جانے سے پہلے کچھ ایسا کرنا چاہتاتھاجس کے ذریعہ ان کی عدم موجودگی میں بھی اُن کا وجود باقی رہے اور وہ تو چلے جائیں لیکن اُن کے پیچھے کوئی ہو جو اُن کے مشن کو جاری رکھے اور مسلمان اختلافات میں الجھے ہی رہیں اور بجائے متحد ہونے کے اُن کا شیرازہ اور بکھرتا ہی چلاجائے بلکہ اور مزید فتنے مسلمانوں میں پھیلیں اس مقصد کے لیے انہوں
Flag Counter