Maktaba Wahhabi

115 - 290
’میرے مخالف جنگلوں کے ’سؤر‘ ہو گئے اور ان کی عورتیں ’کتیوں ‘سے بڑھ گئیں ۔ [1]’’جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ’ولد الحرام ‘بننے کا شوق ہے اور ’حلال زادہ نہیں ‘ ۔‘‘[2] قارئینِ کرام ! آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ ایک طرف تو یہ بغض و نفرت ہے اور دوسری طرف مرزائیوں کا مسلمانوں سے یہ تقاضاہےکہ انہیں اپنا حصہ سمجھا جائے۔ انہیں برابر کے حقوق ملیں اور مسلمان معاشرتی زندگی میں ان سے مل جل کر رہیں ۔ اس کو آپ حقیقت کا نام دیں گے یا منافقت کا کہ ان کی یہ جملہ خواہشیں اور جملہ تقاضے ان کے پیشوا اور ان کے پسماندگان کی تعلیمات کے خلاف ہیں ۔ مرزائی دنیا کی تحریرات میں شادی بیاہ سے لے کر جنازہ اور تدفین تک جملہ معاملات میں مسلمانوں کے بائیکاٹ اور انقطاع کی تعلیم ہے اور اس پر بھرپور زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کسی قسم کا معاملہ نہ رکھیں ۔ حتیٰ کہ ان کے معصوم بچوں کا جنازہ تک نہ پڑھیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے خلفاء کی تعلیمات یہ ہیں تو پھر وہ مسلمانوں سے باہمی روابط کا کیوں مطالبہ اور تقاضا کرتے ہیں ۔ ان دوغلے اور منافقانہ رول کا اندازہ کرنے کے لئے درج ذیل تحریرات سب سے بڑا ثبوت ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں : ’’حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی)نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ جو اپنی لڑکی غیراحمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ لیکن آپ نے یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو۔ لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیراحمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل حکیم نورالدین نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجود کہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔‘‘[3]
Flag Counter