مرزا لکھتا ہے: ”میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں ‘‘ اورپھر کہتا ہے: ’’ اسی حالت میں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان چاہتے ہیں تو میں نے پہلے تو آسمان و زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب و تفریق نہ تھی پھر میں نے منشاءحق کے موافق اس کی ترتیب و تفریق کی ،میں دیکھتا تھا کہ اس کے خلق پر قادر ہوں پھر میں نے آسمانی دنیا کو پیدا کیا اور کہا (إنا زینا السماء الدنیا بمصابیح) (یہ قرآن کریم کی آیات ہے جس میں اللہ تعالیٰ آسمان کی تخلیق کی بابت اپنی قدرتِ کاملہ کا بیان فرمارہا ہےجسے مرزا ملعون اپنی طرف منسوب کر کے ذکر کر رہا ہے ) ۔پھر میں نے کہا اب انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے پھر میری حالت کشف الہام کی طرف منتقل ہوگئی۔“[1] مزید لکھتا ہے: ”أعطیتُ صفة الإفناءوالأحیاء‘‘[2]کہ مجھے فنا کرنے اور زندہ کرنے کی صفت عطا کی گئی ہے۔“ ”إنما أمرك اذا أردتَ لشیئی أن تقول له کُن فیکون‘‘(ارے مرزا!)تیرا کام صرف یہ ہے کہ کسی چیز کا ارادہ کرے تو اسے کہے ’ہوجا‘وہ ہوجائے گا۔“ [3] ’’ أنت من مائنا وھم فی فشل‘‘[4] (اﷲ نے کہاکہ اے مرزا) تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ لوگ فشل سے۔“ ”أنت منّی بمنزلة أولادي‘‘(اے مرزا!) تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ اولاد۔“ [5]” أنت منّی بمنزلة بروزي‘‘(اے مرزا!) تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہوگیا۔“ [6]”خاطبنی اﷲ بقولہ اسمع یا ولدی۔‘‘[7]اﷲ نے مجھے مخاطب کرکے کہا اے میرے بیٹے! سن “ |