Maktaba Wahhabi

103 - 290
تضادات و تناقضات پائے جاتے ہوں ۔ اب آئیے! ذرا مرزا کا خود کا کلام ملاحظہ فرمالیں : الہام کی زبان اور تضاد : مرزا لکھتا ہے: ’’اور یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘[1] جبکہ دوسرے مقام پر کہتا ہے: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں ۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘ [2] یاد رہے کہ مرزا کی اصل زبان تو پنجابی تھی لیکن مرزا کو الہام عربی کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی میں بھی ہوتے تھے جسے دوسرے تو کیا وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ وہ رحمانی الہام نہیں بلکہ شیطانی الہام ہوتے تھے ۔ استاد اور تضاد: ایک مقام پر مرزا لکھتا ہے:’’بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلّم میرے لئے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہٰی تھا۔ ( مرزا کے الفاظ و انداز ملاحظہ کریں ، قرآن مجید پڑھانے والے کو نوکر کہتا ہے جبکہ وہ کوئی عام استاد ہی کیوں نہ ہوتا تب بھی اسے نوکر کہنا خلاف ادب و مقام ہوتا ،پھر کہتا ہے:) اور جب میری عمر تقریبا دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقررکیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو، ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
Flag Counter