Maktaba Wahhabi

145 - 184
پانچواں مبحث: 1419 ہجری میں القاعدہ کا فتنہ 1998ء اسامہ بن لادن امیر ترین نوجوان تھا یہ ستر کی دہائی کے آخر میں صدائے جہاد پر لبیک کہتے ہوئے افغانستان چلا گیا اس وقت افغانی باشندے سوویت یونین کے خلاف برسرِ پیکار تھے، اسامہ بن لادن علم دوست شخص نہیں تھا اور نہ ہی اہل علم سے اس نے دینی تعلیم حاصل کی تھی، محض اس کی امیری نے اسے شہرت دلائی ۔ افغانستان میں رہتے ہوئے اسامہ بن لادن تکفیری سوچ سے متاثر ہوا اور اہل تکفیر کو بھی افغانستان میں خوب زر خیز زمین ملی،افغانستان کا اس وقت ماحول بھی تکفیر سوچ پھیلانے کے لیے انتہائی مناسب تھا، بلکہ کچھ ملکوں کے بھگوڑے بھی جب افغانستان میں پہنچے تو اہل تکفیر کو انہیں اپنے ساتھ ملانے میں کوئی محنت نہیں کرنی پڑی۔ اس فتنے کے ظہور پذیر ہونے اور اس کے لیے راہ ہموار کرنے کا کام قطبی [یعنی سید قطب کے] نظریات نے کیا، انہیں عرب معاشرے میں "سُرُوری" بھی کہا جاتا ہے، یہ سلفی نظریات ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن سلفیت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ انہوں نے کچھ سلفی نوجوانوں کو عقیدہ توحید کی دعوت دکھلا کر آہستہ آہستہ اپنے ساتھ ملا لیا، یہ لوگ سلفی نوجوانوں کے سامنے اسما و صفات کے متعلق اہل سنت والجماعت اور سلفی منہج کے مطابق چلتے تھے، تو اس چیز سے سلفی نوجوانوں کو دھوکا لگا اور وہ سید قطب کے فکری نظریات کے اسیر بن گئے، انہی نظریات میں اسلامی معاشروں کو جاہلیت سے موصوف کیا گیا ہے۔ سید قطب کے پیرو کاروں کو اسلامی معاشرے کی دو بنیادی چیزوں سے عوام الناس کا اعتماد ختم کرنے میں کامیابی ملی : علمائے کرام اور حکمران طبقہ، چنانچہ انہوں نے علمائے کرام
Flag Counter