Maktaba Wahhabi

159 - 184
سے کچھ کی جانب اشارہ کرتا ہوں : علم کے دعویداروں کی علامات پہلی علامت: ایسے لوگ اہل علم کے مشورے اور اجازت کے بغیر اپنے آپ کو مسند فتوی پر براجمان کر لیتے ہیں،اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ دینِ الہٰی کے بارے میں کتنی جسارت اور جرأت سے کام لیتے ہیں ؛ کیونکہ فتوی صادر کرنا اصل میں ایک آزمائش ہوتی ہے چنانچہ جس شخص کو اپنے دین کی فکر ہو وہ اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ مفتی بننے سے کتراتا ہے، تو جدید مسائل اور فتنوں کے وقت تو اپنے آپ کو مفتی بنانے سے اور زیادہ بچانا چاہیے! صحابہ کرام کی یہ عام عادت تھی کہ اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کی بجائے فتوی دینے سے اجتناب کرتے تھے مبادا کوئی غلط بات دینِ الہٰی کی جانب ہماری وجہ سے منسوب نہ ہو جائے، حالانکہ وہ علم و عمل میں ہم سے کہیں آگے تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اہل علم یہی کوشش کرتے آئے ہیں کہ انہیں فتوی نہ دینا پڑے کوئی اور شخص فتوی دے دے، بلکہ کچھ سلف صالحین سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ حساس مسائل میں فتوی دینے سے گریز کرتے تھے، جیسے کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ بھی کبھی کبھار طلاق کے مسئلے کا جواب نہیں دیتے تھے اور سائل کو واپس بھیج دیتے تھے، یا پھر ابو عبید رحمہ اللہ کی جانب سائل کو بھیج کر کہتے "ایسے سوال کا جواب کون دے؟" اگر طلاق کے مسئلے میں اتنی احتیاط ہے تو انتہائی حساس قسم کے موضوعات جن کا اثر بہت وسیع اور دور رس ہوتا ہے ان میں تو مزید احتیاط کرنی چاہیے؛ چونکہ حساس موضوعات کا تعلق اسلامی جماعتوں،ایمان و کفر،خون، جہاد اور حکمرانوں کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے ایسے موضوعات میں خوب احتیاط برتنی چاہیے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ
Flag Counter