Maktaba Wahhabi

74 - 148
(۲)۔ اس سلسلہ کی دوسری مثال،اللہ تعالیٰ کا فرمان:﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ﴾ (الاعراف:57)ہے۔ اس آیت میں لفظ﴿بُشْرًا﴾ کو امام عاصم رحمہ اللہ نے باء کی پیش اور شین ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور دونوں مدنی قراء (امام نافع رحمہ اللہ اور امام ابو جعفر رحمہ اللہ )،ابن کثیر مکی رحمہ اللہ اور دونوں بصری قراء (ابو عمرو رحمہ اللہ اور یعقوب رحمہ اللہ ) نے نون اور شین کی پیش کے ساتھ﴿نُشْرًا﴾ پڑھا ہے۔ابن عامر رحمہ اللہ نے نون کی پیش اور شین ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور امام حمزہ رحمہ اللہ،امام کسائی رحمہ اللہ اورامام خلف رحمہ اللہ نے نون کی فتح (زبر) اور شین ساکن کے ساتھ پڑھا ہے۔یہ چاروں قراءات بطریقِ تواتر نقل ہوئی ہیں اور قطعی الثبوت ہیں۔[1] (۳)۔ اورجہاں تک اللہ تعالیٰ کے فرمان:﴿وَ مَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ﴾ (التوبۃ:114) تعلق ہے۔ تو اس آیت میں جو قراء ۃ تواتر سے ثابت ہے،وہ ہمزہ کے کسرہ (زیر) اور یاء مشددہ کے ساتھ ہے۔اور اگر بعض نے اسے ہمزہ کی فتح (زبر)اور باء مخففہ کے ساتھ (أباہ) پڑھا ہے تو معنی کے اعتبارسے اگرچہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے،اور رسمِ مصحف میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے،لیکن یہ شاذ قراء ۃ ہے۔ ان ثقہ قراء میں سے کسی نے اسے روایت نہیں کیا جن کی قراءات پرامت نے اعتماد کااظہارکیا اورانہیں قبول عام حاصل ہواہے۔ لہٰذا یہ قراء ۃ قابل التفا ت ہے نہ اس کی کوئی اہمیت ہے۔اگر قراءات کا ماخذ رسم الخط ہوتا تو قراء اس قراء ۃ کو کبھی نظر انداز نہ کرتے اور یہ ان کے ہاں لازما ًقابل اعتماد ہوتی۔قراء ۃ کے ثقہ ائمہ کا اس قراء ۃ کو مسترد کرنا،اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ قراءات کا اصل سرچشمہ نقل و سند ہے اور رسم الخط کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ (۴)۔ چوتھی مثال جو گولڈ زیہر نے اس سلسلہ میں پیش کی ہے،وہ سورۃ النساء کی آیت﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا﴾ (النساء 94)
Flag Counter