Maktaba Wahhabi

72 - 148
سے حاصل کیا اور نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا ہوا بالآخر ہم تک پہنچا ہے،جیسا کہ ابھی ہم اس کی وضاحت کریں گے۔ان میں سے ہر قرائۃ اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے اور قطعیت کے اعتبار سے ان کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ ابن جزری رحمہ اللہ نے مزید لکھا ہے: ’’وہ قراءات جو آج ہم تک تواتر اور قطعی ذریعہ سے پہنچی ہیں،وہ ائمہ عشرۃ اور ان کے مشہور راویوں کی قراءات ہیں۔علمائے اسلام کے اقوال سے بھی یہی حقیقت ثابت ہوتی ہے۔اور اسی پر آج اہل شام،عراق،مصر اور اہل حجاز کا اجماع ہے۔‘‘ اس کے بعد ابن جزری رحمہ اللہ نے ائمہ اسلام کی ایک کثیر تعداد،جیسے محی السنہ ابو محمد حسن بن مسعود البغوی،یکتائے روزگار حافظ المشرق ابو العلاء الحسن بن احمد ہمدانی،الحافظ مجتہد امت ابو عمرو بن الصلاح،الحافظ مجتہد العصر ابو العباس احمد بن تیمیہ،امام ابو الحسن السبکی،ان کے بیٹے قاضی القضاۃ اور ان جیسے دیگر کبار ائمہ رحمہم اللہ سے قراءات عشرۃ کا متواتر ہونانقل کیا ہے۔ خلاصئہ کلام یہ ہے کہ ہر دور میں بے شمار انسانوں نے قرآن کریم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کر کے اس کی قطعیت تاریخ کے چہرہ پر ثبت کر دی۔ یہ قرآن کریم کی ایسی عظیم کامیابی ہے جو آج تک کسی آسمانی کتاب کو حاصل نہیں ہوئی۔اس کی پشت پر موجود مسلسل تواتر نے شکوک شبہات کے پردوں کو چاک کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن ِکریم کی ہر ہر روایت اور قراء ت کو زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور پھر اس کی ایک ایک قراء ت اور طرز ِادا کو جس ضبط اور امانت و دیانت کے ساتھ اگلی نسل تک منتقل کیا،تاریخ انسانی ہمیشہ اس پر رشک کرتی رہے گی۔قرآنِ کریم کے حفظ وضبط کا جو انتہائی مضبوط نظام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قائم کیا تھا،اس کی موجودگی میں اس کے کسی جملہ،کلمہ،حرف یا حرکت کے ضائع ہونے کا تصور بھی محال ہے۔نیزصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کے کسی
Flag Counter