Maktaba Wahhabi

67 - 148
جھوٹ پر اتفاق کر لینا یا اتفاقا ًان سے جھوٹ کا سرزد ہونا عادتا ًمحال ہو۔اور خبر متواتر سے مراد وہ خبر ہے،جسے نقل کرنے والی اتنی کثیر تعداد ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا ممکن نہ ہو اور یہ تعداد شروع سند سے لے آخر سند تک ہر طبقہ میں موجود ہو۔نیز اس خبر کا تعلق مشاہدہ یا سماع سے ہو۔واضح رہے کہ تواتر اس وقت تک ثابت نہیں ہو گا،جب تک کہ مطلوبہ تعداد آغاز سے انتہاء تک تمام طبقات میں موجود نہ ہو۔اگر یہ تعداد سند کے کسی طبقہ میں مفقود ہوئی تو تواتر اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ خبرِ متواتراپنے سامعین کو علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ائمہ عشرہ کی قراءات یقینی اور قطعی ہیں۔ قراءات عشرہ کے ان دس ائمہ کے نام یہ ہیں: نافع بن ابو نعیم المدنی،ابو جعفر یزید بن ابو القعقاع المدنی،عبد اللہ بن کثیر المکی،ابو عمرو بن العلا البصری،یعقوب بن اسحاق البصری،عبد اللہ بن عامر الشامی،عاصم بن ابی النجود،حمزۃ بن حبیب الزیات،علی بن حمزۃ الکسائی اور خلف بن ہشام البزاررحمہم اللہ اجمعین۔ مؤخر الذکر تینوں قراء اہل کوفہ میں سے ہیں۔ ان ائمہ کی قراءات کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک کثیر تعداد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا تھا۔اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ تمام قراءات براہ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے حاصل کی تھیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آگے تابعین نے انہیں روایت کیا،اور تابعین سے تبع تابعین نے اور ان سے مذکورہ بالا ائمہ کرام نے یہ قراءات حاصل کیں۔پھر ان ائمہ سے ہر دور میں اتنی بڑی تعداد نے یہ قراءات روایت کیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔کوئی ایسی قوم نہیں گزری،کوئی ایسا دور نہیں آیا اور کوئی ایسا علاقہ نہیں تھا جہاں ایک جم غفیر نے ائمہ عشرۃ کی قراءات کو اگلی نسل تک منتقل نہ کیا ہو اور اسی جم غفیر کو لیے ہوئے یہ سلسلہ ہم تک پہنچا ہے۔اور ان شاء اللہ امت مسلمہ روزِ قیامت تک اسی طرح ان قراءات کی حفاظت اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا فرض انجام دیتی رہے گی۔کیونکہ اللہ کریم کا یہ وعدہ ہے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:9)
Flag Counter