Maktaba Wahhabi

66 - 148
نیزابن خالویہ رحمہ اللہ اپنی ’’کتاب الحجۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تنہا ابو عمرو رحمہ اللہ نے ہی ’’یَغْفِرْ لَکُمْ‘‘ اور اس کے مشابہ آیات میں راء کو لام میں ادغام کیا ہے،حالانکہ راء کا لام میں ادغام بصری نحویوں کے نزدیک کمزور موقف ہے۔(جبکہ ابوعمرو رحمہ اللہ خود نحاۃِ بصرہ کے امام ہیں) ابو عمرو رحمہ اللہ کی طرح امام کسائی رحمہ اللہ کا بھی یہی معاملہ ہے۔بعض مقامات پر ان کی قراء ت خود ان کے اپنے ہی نحوی موقف کے خلاف ہے۔‘‘ ان حقائق کی کوئی توجیہ سوائے اس کے ممکن نہیں ہے کہ فنِ قراء ت کے ان ائمہ کے ہاں قراء ت کا تمام تر دارومدار نقل و روایت پر تھا،قواعدِ نحویہ اورعقل ودرایت پر قطعاً نہیں تھا۔امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے واضح لکھا ہے کہ ’’ مَا قَرَأَ حَمْزَۃُ حَرْفًا مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی إِلَّا بِأَثْرٍ،وَ کَانَ لِیَحْیَی ابْنِ سَلَّامٍ اِخْتِیَارٌ فِی الْقِرَائَ ۃِ وَ لٰکِنَّ مِنْ طَرِیْقِ الْآثَارِ،وَ کَانَ الْإِمَامُ اَبُوْ عُبَیْدٍ الْقَاسِمِ بْنِ سَلَّامٍ یَخْتَارُ مِنَ الْقِرَائَ اتِ مَا یُوَافِقُ الْعَرَبِیَّۃَ وَ الْأَثْرَ جَمِیْعًا۔‘‘ ’’کتاب اللہ میں امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ۃ کا ایک حرف بھی ایسا نہیں،جس کی پشت پر کوئی نہ کوئی اثر و نقل موجود نہ ہو۔یحییٰ بن سلام رحمہ اللہ کے ہاں اگرچہ قراءات کے انتخاب کا ایک معیار تھا،لیکن اس کی تمام تر بنیاد آثار و روایات پر تھی اور امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ صرف انہیں قراءات کا انتخاب کرتے جو بیک وقت عربی لغت اور نقل واثر کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی تھیں۔‘‘ گیارھویں دلیل: امت مسلمہ ہمیشہ اس بات پر متفق رہی ہے کہ ائمہ عشرہ کی قراءات متواتر ہیں اور یہ تمام قراءات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی اور قطعی ذرائع سے ثابت ہیں۔متواتر سے مراد،جیسا کہ علمائے اصول نے اس کی تعریف کی ہے،اتنی بڑی تعداد کسی معاملے پر اتفاق کر لے کہ ان کا
Flag Counter