Maktaba Wahhabi

147 - 148
اجازت دی ہے۔اور اہلِ عرب سات،ستر اور سات سو کے الفاظ کو مطلق استعمال کرتے ہیں اور ان اعداد کی حقیقت مراد نہیں لیتے کہ ان میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کی جا سکے۔ بلکہ وہ بغیر کسی تعیین کے اسے کثرت اور مبالغہ پر محمول کرتے ہیں۔یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس مفہوم کو ماننے سے ابا کر رہی ہے۔متعدد روایات سے یہ ثابت ہے کہ جبریل امین علیہ السلام جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک حرف لے کر آئے تو میکائیل علیہ السلام نے ان سے کہا:اس میں اضافہ کا مطالبہ کیجئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ سے اپنی امت پر آسانی کی استدعا کی۔جس پر جیریل علیہ السلام دو حرف لے کر آئے تو میکائیل نے ان سے کہا:ان میں اور اضافہ کا مطالبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے آسانی کی درخواست کریں۔جس پر قرآن کریم کو تین حروف پر پڑھنے کی اجازت دے دی گئی۔مسلسل تکرار کے بعد بالآخر حروف کی تعداد سات تک بڑھا دی گئی۔اور ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں نے میکائیل کی طرف دیکھا،لیکن وہ خاموش رہے تو میں جان گیا کہ معاملہ سات پر ختم ہو گیا ہے۔‘‘ اس حدیث سے یہ حقیقت مبرہن ہو جاتی ہے کہ یہاں سات کا مخصوص عدد ہی مراد ہے،کثرت مراد نہیں ہے۔ گولڈ زیہر کا دوسرا دعویٰ کہ ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے اس روایت کو شاذ اور غیر مستند قرار دے کر مسترد کر دیا ہے،سراسر باطل اورابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی ذات پر بدترین بہتان ہے۔ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ نے نہ صرف اس حدیث کو صحیح و مشہور کہا ہے بلکہ واضح طور پر اسے متواتر قرار دیا ہے۔جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں،محقق ابن حزری رحمہ اللہ نے النشر میں،امام سیوطی رحمہ اللہ نے الإتقان فی علوم القرآن اور تدریب الراوی میں اور ان کے علاوہ تمام علماء نے قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی اس تصریح کو نقل کیا ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ 62 پر گولڈ زیہر لکھتے ہیں:
Flag Counter