Maktaba Wahhabi

146 - 148
کہ سبعہ احرف کی حدیث علم قراءات کے ثبوت کا نقطہ آغاز اور اصل بنیاد ہے۔اور صفحہ 54 پر گولڈ زیہر نے خود یہ مانا ہے کہ جب قرآنی متن کی قراء ت کے سلسلے میں اختلافات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بنیادی قانون جاری فرمایا کہ قرآن کریم کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔ اپنے ان دو بیانات کے درمیان گولڈ زیہر کا یہ کہنا کہ ’’اس کا اختلاف ِقراءات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘فکری تضاد کی واضح مثال ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ 54 پرگولڈ زیہر نے یہ لکھا ہے کہ ’’سبعہ احرف کی حدیث جو معتبر کتبِ سنہ میں بیان ہوئی ہے،اگر اسے مذکورہ بالا معانی پر محمول کرتے ہوئے اختلافِ قراءات کی دلیل بنایا بھی جائے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم جن حروف پر نازل ہوا ہے،وہ مخصوص طور پر سات ہی ہیں،بلکہ اس سے مراد کثرت ہے کہ قرآن کریم بہت سے طریقوں پر نازل ہوا ہے۔اور کلام الٰہی اور اعجاز کے اعتبار سے ہر طریقہ دوسرے طریقے کے بالکل مماثل ہے۔اگرچہ ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ جیسے محققین نے اس روایت کو شاذ اور غیر مستند قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔‘‘ گولڈ زیہر نے یہاں دو دعوے کئے ہیں: پہلا دعوی ٰ:کہ سات کے عدد سے حقیقت مراد نہیں ہے،بلکہ کثرت مراد ہے اورقرآن کریم کے سات حروف پر نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم بہت سے طریقوں اور قراءات پر نازل ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے،بلکہ گولڈ زیہر سے بہت پہلے بعض علماء نے حدیث سبعہ احرف سے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔چنانچہ امام ابن الجزری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’النشر فی القراءات العشر‘‘ میں لکھا ہے: ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں سات کے عدد سے اس کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے،کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو،بلکہ وسعت اور آسانی مراد ہے۔یعنی لغاتِ عرب میں سے کسی بھی لغت کے مطابق پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی
Flag Counter