Maktaba Wahhabi

137 - 148
حقیقت کو واضح کرنا تھا کہ جس شخص نے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیڑا اٹھایا،اسے اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا،لہٰذا اسے چاہیے کہ ان تکالیف پر صبر کرے اور اللہ سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ان اذیتوں کو برداشت کرنے کی توفیق دے۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ مفہوم سورۃ لقمان کی اس آیت سے اخذ کیا تھا:﴿یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُور﴾ (لقمان:17) ان کا مقصد قطعاً یہ نہیں تھا کہ یہ اضافی الفاظ بھی آیت کا حصہ ہیں۔کیا کوئی عقل مند یہ تصور کر سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مصاحف عثمانیہ کے علاوہ تمام مصاحف کو نذر آتش کرنے کا حکم دیں اور پھر خود ہی ایک ایسی قراء ت کو اختیار کریں جو مصاحف ِعثمانیہ کے صریح خلاف ہے؟کیا کوئی ہوش مند یہ مان سکتا ہے کہ آپ امت مسلمہ کو تو رسمِ مصحف کا پاپند کریں،لیکن خود اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس میں الفاظ کی کمی بیشی کریں؟ امام قرطبی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ قراء ۃعبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف بھی منسوب ہے۔اس کے بعد انہوں نے امام ابن الانباری رحمہ اللہ کا یہ نقل کیا ہے: ’’یہ اضافہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے تفسیر ہے اور ان کا اپنا کلام ہے،جسے بعض غیر ذمہ دار ناقلین نے غلط فہمی سے قرآن کے ساتھ ملا دیا … کوئی بھی ذی ہوش انسان اس میں ذرا شک نہیں کرے گاکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس اضافہ کو قرآن نہیں سمجھتے تھے،کیونکہ انہوں نے اسے مصحف میں نہیں لکھوایا تھا،حالانکہ آپ اس وقت عالم ِاسلام کے واحد حکمران اور امام تھے۔ اگر آپ رضی اللہ عنہ اس اضافہ کو قرآن کا حصہ سمجھتے ہوتے تو اسے مصاحف میں ضرور لکھواتے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے اس اضافہ کو محض وعظ و نصیحت اورپرور دگارِ عالم کے ماقبل کلام کی تاکید اور تفسیر کے لیے ذکر کیا ہے۔‘‘ بہرحال مصاحف عثمانیہ میں اس قراء ۃ کا کوئی وجود نہیں ہے اور ہم بارہا دفعہ یہ واضح کر
Flag Counter