Maktaba Wahhabi

136 - 148
تجزیہ: حقیقت یہ ہے کہ تاریخِ اسلام کے کسی دور میں بھی ایسی کسی آزادی کا کوئی وجود نہیں رہا،سوائے چند لوگوں کے جنہوں نے اس شاذ نقطہ نظر کو اختیار کیا تو پوری امت مسلمہ ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور انتہائی سختی اور دلائل کے ساتھ ان لوگوں کا رد کیا۔بالآخر وہ اپنی اس رائے دستبردار ہوگئے اور اس نقطہ نظر سے توبہ کر لی۔علماء اور قراء کے ایک جم غفیرکے سامنے ان کی توبہ کی دستاویز لکھی گئی،جس پر ان کے دستخط لیے گئے۔ان میں ایک ابن شنبوذ(م۳۲۸ھ) اور دووسرا ابو بکرالعطار(م ۳۵۴ھ) تھا۔ہاں البتہ یہ آزادی ہر قاری کو حاصل ہے اور ہمیشہ حاصل رہے گی کہ وہ نقل و اثر کے دائرہ میں ہراس قراء ۃ کو اختیار کر سکتا ہے جو تواتر سے ثابت ہے،اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی خاص قراء ت یا روایت کا التزام کرے۔ اورجہاں تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ’’و یستعینون اللّٰه علی ما أصابہم‘‘ کی قراء ۃ کا تعلق ہے تو اگر یہ روایت ان سے صحیح ثابت ہے تو دو حال سے خالی نہیں۔اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ قراء ۃ مصاحف عثمانیہ کی تدوین سے قبل بیان کی تھی تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ ان قراءات میں سے ہے جو پہلے نازل ہوئی تھیں اور پھرعرضہ اخیرہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا آخری دور)کے وقت منسوخ ہو گئیں تھیں اور شاید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہو سکا اور وہ اس کی قراء ت کرتے رہے،جس طرح کے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اس طرح کی قراءات کی تلاوت کرتے رہے جن کی قراء ت پہلے جائز تھی،پھر عرضہ اخیرہ کے وقت منسوخ ہو گئی،لیکن انہیں ان کے نسخ کا علم نہ ہو سکا۔قراءات کی یہی وہ قسم تھی جو اہل شام اوراہل عراق کے درمیان اختلاف اور نزاع کا باعث ہوئی تھی اور یہی قراءات مصاحف عثمانیہ کی تدوین کا محرک بنی تھیں۔اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی تدوین کے بعد اسے پڑھا ہے تو پھر اس کی کوئی توجیہ سوائے اس کے ممکن نہیں کہ انہوں نے یہ الفاظ آیت کی تفسیر میں پڑھے ہیں۔اس سے ان کا مقصد اس
Flag Counter