Maktaba Wahhabi

131 - 148
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورے سے مصاحف کی کتابت کا حکم دیا۔ کتابت مکمل ہو گئی،ان مصاحف کی تعداد ایک روایت کے مطابق چھ اور ایک روایت کے مطابق آٹھ تھی۔ تدوین کے بعد آپ نے ان تمام مصاحف کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے اس کے ایک ایک حرف سے اتفاق کیا۔اور تمام مصاحف عثمانیہ﴿وَ الْمُقِیْمِیْنَ﴾ اور﴿حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا﴾ پر متفق تھے۔ کیا کوئی ذی ہوش انسان اس بات کو تسلیم کر سکتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کتاب اللہ میں کوئی غلطی یا تصحیف دیکھیں اور پھر اسے بغیر اصلاح اور درستگی کے ویسے ہی چھوڑ دیں؟ حالانکہ قرآن کریم سے زیادہ مقدس چیز ان کی نگاہ میں کوئی نہیں تھی۔ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ایسی تمام روایات کو من گھڑت اور خود ساختہ قرار دیا ہے اور نصب کے ساتھ ’’وَ الْمُقِیْمِیْنَ‘‘ کی قراء ۃ کی تو جیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’کوفہ اور بصرہ کے بعض علماء نے کہا ہے کہ﴿وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصلوۃ﴾ درحقیقت﴿الراسِخون فی العلمِ﴾ کی صفت ہے،لیکن سلسلہ کلام جب طویل ہو ا اور ’’الراسِخون فی العلمِ‘‘ اور﴿وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصلوۃ﴾ کے درمیان دوسری کلام حائل ہو گئی تو بطور مدح ’’وَ الْمُقِیْمِیْنَ‘‘ کو نصب دے دی گئی۔ اور ایک ہی چیز کی صفت کے بارے میں عرب یہ اسلوب بھی اختیار کرتے ہیں کہ مدح و ذم (تعریف و مذمت)کے پیرائے میں جب سلسلہ کلام طویل ہو جائے تو اہل عرب بعض دفعہ آغازِ کلام اور درمیانِ کلام کے اعراب میں فرق کرتے ہیں اورپھرکلام کے آخر میں وہی اعراب دیتے ہیں جو کلام کے شروع میں دیا گیا تھا۔اور بعض دفعہ کلام کے آخرکا اعراب درمیانِ کلام کے مطابق رکھتے ہیں۔اور بعض دفعہ پورے سلسلہ کلام میں ایک ہی طرح کا اعراب رکھتے ہیں۔ کوفہ اور بصرہ کے ان علماء نے اپنے اس اصول پر قرآن کریم کی اس آیت سے استشہاد کیا ہے:﴿وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُوا
Flag Counter