Maktaba Wahhabi

123 - 148
قَآئِلٌ مِّنْہُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَ اَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ﴾ (یوسف:10-8) ’’سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا بالکل ہی بہک گئے ہیں۔ چلو یوسف کو قتل کر دو یا کسی علاقہ میں پھینک دو،تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہی ہو جائے۔ یہ کام کرلینے کے بعد پھر نیک بن جانا۔اس پر ان میں سے ایک کہنے لگا:یوسف کو قتل نہ کرو،بلکہ اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو،کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا۔‘‘ غورکیجئے! قرآن کریم نے پہلے انہیں یوسف اور اس کے بھائی کے خلاف حسد و رقابت کا مرتکب قرار دیا۔ پھربتایا کہ انہوں نے اپنے باپ جو اللہ کے پیغمبر بھی ہیں،کو واضح گمراہی سے متہم کیا۔اس کے بعد قرآن نے انہیں اپنے بھائی کے قتل کی شازش کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کی طرف ایک معصوم بچے کے قتل جیسے انتہائی گھناؤنے جرم کی نسبت کی،جس کا گناہ صرف یہ تھا کہ باپ کے دل میں اس کی محبت گھر کر گئی تھی۔اور یہ بچہ بھی کوئی اجنبی نہیں تھا،بلکہ ان کا بھائی تھا۔ وہ سب ایک ہی باپ کی اولاد تھے۔حالانکہ قتل،شرک بعد کے سب سے بڑاجرم ہے۔قرآن صاف کہتا ہے کہ یوسف کے بھائیوں نے باہم مشورہ کیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا جنگل میں پھینک دیا جائے کہ درندے انہیں پھاڑ کھائیں۔اور ایک بھائی جو سب سے زیادہ نرم دل تھا،نے مشورہ دیا کہ اسے کسی اندھے کنویں میں پھینک دیا جائے کہ کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا۔ ا س کے بعد قرآن کریم نے برادران یوسف کو مکر و فریب،دھوکے،فراڈ اور ڈرامہ رچانے کا مرتکب قرار دیا ہے اور ان کی طرف انتہائی قبیح جھوٹ کی نسبت کی ہے۔قرآن کریم کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے: ﴿وَ جَآئُ وْ اَبَاہُمْ عِشَآئً یَّبْکُوْنَ قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ وَ مَا اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ کُنَّا
Flag Counter