Maktaba Wahhabi

97 - 194
اور قرآن کے مقام کے منافی ہے۔ یہی کچھ قاسم بن محمد کے انکار سے سمجھا جائے گا اجو انہوں نے مسجد نبوی میں ایک شخص کی قرا ت پہ کیا اس نے ترنم اور سُر سے پڑھا تو قاسم نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی ﴿لاَ یَأْتِیْہِ البَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ﴾ (حم السجدۃ: 42) جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا اس کے آگے سے نہ پیچھے سے یہ حکمتوں اور خوبیوں والے (اللہ ) کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ یہ معنی ان کے استشہاد سے سمجھا جائے گا اور یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص نے بعض گانوں کی طرز پہ ایسے ترنم سے پڑھا جس پہ اہل فسق و کبائر پڑھتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص آسانی کے ساتھ ایسی غمزدہ اور افسردہ قراءت کرے جس سے دل میں حرکت پیدا ہو جائے تو کیا اس سے کسی نے منع کیا ہے؟ خلال کہتے ہیں: مجھے ابوبکر مروزی نے خبر دی انہوں نے کہا: میں نے ابو عبداللہ سے سنا جب ہم ایک جنگ سے واپس آرہے تھے وہ ایک شخص سے کہہ رہے تھے ، اگر ایسا پڑھ…… اور ابو عبداللہ کی آنکھوں میں آنسو ٹپکنے لگے۔ [1] خلال کہتے ہیں میں نے ابوبکر مروزی کو دیکھا جب ان کے پاس کوئی ایسا شخص آتا جو شائستگی اور نرمی سے قراءت کرتا تو اکثر وہ اسے کہتے کہ وہ یہ پڑھے ۔ ﴿اِنَّ الأَوَّلِیْنَ وَالأٓخِرِیْنَ لَمَجْمُوعُوْنَ اِلٰی مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ﴾ (الواقعۃ: 49، 50) ’’آپ کہہ دیجیے کہ یقیناسب اگلے اورپچھلے ایک مقرردن کے وقت ضرورجمع کیے جائیں گے۔‘‘ یہ بات معروف ہے کہ غمزدہ کرنیوالی قراءت الحان کی اقسام میں سے ہے اور (خوبصورت) آواز کی ایک شکل ہے۔ تو شاید امام احمد اور دوسرے سلف صالحین سے اس کی
Flag Counter